خلامیں بھی امریکا کی حکمرانی کا خاتمہ،چین کے جاسوس سیٹیلائٹس نے بھارت سمیت دنیا کے ہوش اڑا کر رکھ دئیے
یہ سیٹلائٹس نہ صرف حریف ممالک کی فوجوں پر نظر رکھتے ہیں بلکہ وہاں اہم شخصیات کی نقل و حرکت اور گفتگو کو بھی انٹرسیپٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں
بیجنگ(ویب ڈیسک)خلامیں بھی امریکا کی حکمرانی کا خاتمہ،چین کے جاسوس سیٹیلائٹس نے بھارت سمیت دنیا کے ہوش اڑا کر رکھ دئیے۔رپورٹس کے مطابق دنیا بھر کے ممالک میں خلا کی طرف جاسوس سیٹیلائٹس بھیجنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ سیٹلائٹس نہ صرف حریف ممالک کی فوجوں پر نظر رکھتے ہیں بلکہ وہاں اہم شخصیات کی نقل و حرکت اور گفتگو کو بھی انٹرسیپٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں جاسوس سیٹیلائٹ سے بنائی گئی کچھ تصاویر بھی منظرِ عام پر آئیں جس سے معلوم ہوا کہ چین لداخ کے علاقے میں انڈیا کے ساتھ متصل ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ کے قریب واقع پینگونگ سو جھیل کے کنارے ہتھیاروں، ایندھن اور بکتر بند گاڑیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے زیرِ زمین بنکرز تعمیر کر رہا ہے۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں چینی اور انڈین فوج کا گلوان کے علاقے میں سنہ 2020 میں تصادم ہوا تھا۔ اس علاقے میں اب بھی چین اور انڈیا کی فوجیں تعینات ہیں۔ جاسوس سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر تاخیر سے منظرِعام پر آئیں اور اس لیے یہ انڈیا کے لیے دفاعی اعتبار سے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئیں۔ تاہم اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ممالک کی جانب سے خلا میں بھیجی جانے والے جاسوس سیٹیلائٹس وسیع پیمانے پر اہم معلومات اکھٹی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایک اہم دفاعی ہتھیار بن چکے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں نگرانی کرنے والے سیٹلائٹس سے حاصل کردہ تصاویر کے سبب چین کی زیر تعمیر جوہری آبدوز، کراچی کی بندرگاہ پر چین کے جنگی جہاز کا پڑاؤ اور انڈیا کی تیسری جوہری آبدوز کی بحریہ میں ممکنہ شمولیت جیسی اہم معلومات منظرِ عام پر آئی ہیں۔ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کوئی نئی بات نہیں کیونکہ دونوں ممالک کی فوجیں کئی مرتبہ سرحدی علاقوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکی ہیں۔
لیکن دونوں ممالک کے تعلقات میں برسوں سے جاری کشیدگی اب زمین سے اُٹھ کر خلا کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دونوں ممالک خلا میں جاسوس سیٹلائٹ بھیجنے کی ایک دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ انڈین بحریہ کے ساتھ ماضی میں سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور انٹیلی جنس پر کام کرنے والے ریٹائرڈ کموڈور ملند کلشریشٹھا کہتے ہیں کہ ’اگر تعداد اور حجم کی بات کی جائے تو انڈیا اب بھی چین سے ایک دہائی سے زیادہ پیچھے ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کے لیے لانچ گاڑیوں کا تعلق ہے، ہم چین کے برابر ہیں۔ لیکن مثلا اگر انسان کو خلا میں بھجینے کی بات ہو تو ہم ابھی بھی بہت پیچھے ہیں۔ ہماری سیٹلائٹس کی تعداد چین کے مقابلے میں بہت کم ہے۔‘ ’اس شعبے میں چین پہلے ہی ایک سپر پاور ہے، ہمیں ابھی کافی کام کرنا ہے۔‘
گذشتہ چند برسوں میں چین اور امریکہ خلائی میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ چین اس مقابلے میں شاید امریکہ سے تو نہ جیت سکا ہو لیکن ایک بات واضح ہے کہ وہ خلا میں جاسوس سیٹلائٹس بھیجنے میں کم از کم اپنے پڑوسی ممالک پر سبقت رکھتا ہے۔ امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی نے 2022 میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق دنیا کا تقریباً نصف ’آئی آر ایس‘ سسٹم چینی افواج کی ملکیت ہے۔
’آئی آر ایس‘ انٹیلی جنس کی زبان میں استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔ اس سسٹم کے تحت ممالک اپنے حریفوں کی نہ صرف نگرانی کرتے ہیں بلکہ انٹیلی جنس بھی اکھٹی کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین کی ’یہ سیٹلائٹس پیپلز لبریشن آرمی کو کوریا اور اس کے آس پاس کے علاقوں بشمول تائیوان، بحر ہند اور بحیرہ جنوبی چین سمیت ممکنہ اہم مقامات کی نگرانی کرنے کے قابل بناتے ہیں۔‘
لندن میں واقع آئی آئی ایس ایس نامی تھنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تعداد کے لحاظ سے چین کے پاس اب خلا میں کم از کم 245 دفاعی اور جاسوس سیٹلائٹس ہیں، جبکہ انڈیا کے پاس محض 26 ایسی سیٹلائٹس ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’انٹیلی جنس، سرویلینس اور ریکنیسزینس‘ (آئی آر ایس) کے لیے چین کی 92 جاسوس سیٹلائٹس خلا میں موجود ہیں۔