مقبوضہ کشمیراورخالصتان کےساتھ انڈیا کو منی پور میں ایک اورتحریک آزادی کا سامنا،انڈین فورسز ہائی الرٹ،چین بھی میدان میں کُود پڑا
ایک سال پہلے پرتشدد نسلی فسادات کے نتیجے میں کروڑ پتی سے بھکاری بن جانے والے ہزاروں افراد نے علیحدگی کی تحریک شروع کردی جس کے بعدانڈیا سے آزادی حاصل کرنے کے لئے چلنے والی اس تحریک کو مقبوضہ کشمیر اور خالصتان تحریک کے بعد سب سے بڑی تحریک آزادی قرار دیا جارہا ہے
منی پور(ویب ڈیسک)مقبوضہ کشمیراورخالصتان کےساتھ انڈیا کو منی پور میں ایک اورتحریک آزادی کا سامنا،انڈین فورسز ہائی الرٹ،چین بھی میدان میں کُود پڑا ۔رپورٹس کے مطابق انڈیا کی ریاست منی پور میں ایک سال پہلے پرتشدد نسلی فسادات کے نتیجے میں کروڑ پتی سے بھکاری بن جانے والے ہزاروں افراد نے علیحدگی کی تحریک شروع کردی جس کے بعدانڈیا سے آزادی حاصل کرنے کے لئے چلنے والی اس تحریک کو مقبوضہ کشمیر اور خالصتان تحریک کے بعد سب سے بڑی تحریک آزادی قرار دیا جارہا ہے ۔نریندرا مودی اپنی وزارت عظمیٰ کے تیسرے دور سے گزر رہے ہیں تاہم اس مرتبہ انھیں جہاں بھاری بھرکم اپوزیشن کا سامنا ہے وہاں انڈیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کی صور ت میں سنگین ترین چیلنجز کا بھی سامنا ہے ۔منی پور کے ساتھ میانمار کی سرحد لگتی ہے ،بھارتی میڈیا کا دعوی ہے کہ چین لداخ کے ساتھ ساتھ میانمار کے راستے سے منی پور کے علیحدگی پسندباغیوں کی مدد کررہا ہے جسے آزادی دلوانے کے بعد وہ اس علاقے کو اپنی ملکیت یا کالونی ڈیکلئرڈ کسکتا ہے ۔ماضی میں بھی منی پور میں مسلمانوں اور مقامی ہندوں پر مشتمل علیحدگی پسند باغی گروپ سرگرام رہے ہیں ۔انڈیا میں گزشتہ دنوں ہونے والے انتخابات کے بعد منی پور کے باغیوں نے پہلے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ انڈیا سے آزادی کی تحریک شروع کردی ہے اور انڈین گورنمنٹ کی عسکری قوتوں کو نئے امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ منی پور کی آبادی 25 لاکھ کے لگ بھگ افراد پر مشتمل ہے۔
انڈیا کی ریاست منی پور میں گذشتہ سال مئی میں ہونے والے پرتشدد نسلی فسادات کے نتیجے میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے تاہم ایک سال گزرنے کے بعد بھی وہاں اب تک زندگی دوبارہ معمول پر نہیں آ سکی ہے۔لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے کہا تھا منی پور ایک سال سے امن کا انتظار کر رہا ہے، اس سے پہلے یہ 10 سال تک پرامن تھا۔ وہ آگ جو اچانک لگی یا منصوبہ بندی کے تحت اس تنازعے کو پیدا کیا گیا تاہم منی پور میں اب بھی جل رہا ہے، اس پر کون توجہ دے گا؟ان کے بیان کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے آرمی چیف اور انٹیلی جنس چیف جیسے سینیئر عہدیداروں کی میٹنگ بلائی۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تشدد سے متاثرہ میٹی اور کوکی برادری کے لوگ اب کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ بعض افراد کو وہاں سے جان بچا کر پڑوسی ریاست میزورم میں پناہ لینی پڑی ہے۔منی پور ریاست کی میٹی کمیونٹی، جو یہاں کی کل آبادی کا تقریبا 50 فیصد ہے، کئی برسوں سے شیڈولڈ ٹرائب کیٹیگری میں شمولیت کا مطالبہ کر رہی تھی۔منی پور کی میٹی کمیونٹی کو قبائل کا درجہ دینے کا مطالبہ اس تشدد کی اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ منی پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والی کوکی برادری اس مطالبے کی شدید مخالف ہے۔
منی پور کے بی جے پی کے ترجمان میان گلابم سریش نے کہا کہ حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ کیمپوں میں کھانا یا تھوڑا سا پیسہ دینے سے کوئی بھی خوش نہیں ہوگا۔ہم ضلعی انتظامیہ کے ذریعے ہر بے گھر ہونے والے کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان حالات میں کوئی اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپ میں رہنا نہیں چاہے گا۔حکومتی کوششوں، دعوں اور بہتر مستقبل کی امیدوں کے درمیان اس وقت منی پور کی یہی حقیقت ہے کہ ایک سال پہلے ہونے والے پر تشدد نسلی فسادات سے منی پور کے یہ دیہات تباہ مکانات منہدم اور خاندان بکھر کر رہ گئے۔