اگرتلہ سے شروع اگرتلہ پر ختم
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں حلف اٹھا لیا' صاف، شفاف غیر جانبدارانہ، قانون کے مطابق جمہوری انتخابات سب سے بڑا مطالبہ
تحریر : شکیلہ فاطمہ
بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن نظریہ کا آخرکار خاتمہ ہو گیا۔ شیخ مجیب زمانہ طالب علمی سے سیکولر اور سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے جب خواجہ ناظم الدین نے عوامی مسلم لیگ بنائی تو شیخ مجیب الرحمن اس میں شامل ہو گئے اور جماعت کے نام سے مسلم کے لفظ کو ختم کروا کے عوامی لیگ کا نام دلوایا گیا تاکہ اس کے سیکولر ہونے کا تاثر قائم کیا جا سکے۔ شروع میں شیخ مجیب الرحمن کو کچھ زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی اور وہ بی کلاس لیڈر کے طور پر سیاست میں موجود رہے۔ لیکن پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بنگال سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماں کو مسلسل نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کیلئے پاکستان میں سیاست کرنا مشکل بنا دیا گیا تین بڑے نام خواجہ ناظم الدین، مولوی فضل الحق، حسین سہروردی اور دیگر نمایاں تحریک پاکستان کے بنگالی رہنماں کو یکے بعد دیگرے نشانہ ستم بنایا گیا اور انہیں غدار پاکستان جیسے القابات سے نوازا گیا۔ سکندر مرزا اور بعد ازاں جنرل ایوب خان نے جمہوریت کا قتل عام کیا ججوں کو ساتھ ملایا اور ایک طرح سے جمہوریت کو گالی بنا دیا ، ڈکٹیٹر شپ عروج پر تھی اور 1962 سے 1964 کے عرصہ میں مذکورہ نامور بنگالی رہنماں کی وفات نے عوامی لیگ کو مکمل طور پر شیخ مجیب الرحمن کی جھولی میں ڈال دیا۔اس پر جلتی پر تیل کا کام ایوب خان کے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ناروا سلوک اور الیکشن میں تاریخ ساز دھاندلی نے کیا اور شیخ مجیب الرحمن کو موقع مل گیا کہ وہ کھل کر اپنے نظریات کا پرچار کرتا جس کیلئے زمین مغربی پاکستان کے ڈکٹیٹرز نے مہیا کر دی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن شروع دن سے فیڈریشن کی بجائے کنفیڈریشن کے نظریات پر قائم تھا لیکن شروع میں اسے نامور رہنماں کی موجودگی میں اسکا پرچار کرنے کا موقع میسر نہ تھا لیکن 1964 کے بعد اس کیلئے میدان صاف ہو چکا تھا اور اب شیخ مجیب الرحمن نظریہ پاکستان کی مخالفت میں اپنا سیکولر نظریہ کھل کر سامنے لے آئے۔ ان کے مشہور چھ نکات کا لب لباب بھی بنگلہ دیش کو ایک علیحدہ اکائی بنانا تھا۔ بھارت شروع دن سے پاکستان کو ختم کرنا چاہتا تھا اس لئے اسے شیخ مجیب الرحمن جیسا بیٹا مل گیا اور یہاں سے اگرتلہ سازش کا آغاز ہوا۔ بنگلہ دیش کے علیحدگی پسندوں کو فنڈز دیئے گئے انکی ذہن سازی کی گئی اور بھارت کا شہر اگرتلہ اس سازش کا گڑھ بن گیا ۔ بنگلہ دیشی سیاسی زعما جنکی قیادت شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھ میں تھی اگرتلہ آتے اور انڈین سیاسی لیڈروں اور ایجنسیوں سے سبق حاصل کرتے اور واپس جا کے اس پر عمل درآمد کرواتے اس میں سول بیوروکریٹس، فوجی افسران اور سیاست دان شامل تھے۔ اسی سازش کے تحت مکتی باہنی جیسی تنظیمیں وجود میں لائی گئیں اور مغربی پاکستان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ پھیلایا گیا۔ 1966 کے نام نہاد الیکشن کے بعد جنرل ایوب خان نے 1967 میں اگرتلہ سازش کیس تیار کروایا اور سینکڑوں لوگوں کو اس میں ملزم نامزد کیا گیا شیخ مجیب الرحمن اس کیس کا مرکزی ملزم تھا۔ اس کیلئے جنرل ایوب نے ایک تین رکنی عدالتی بینچ جسٹس شیخ عبدالرحمن جنہیں عرف عام میں ایس اے رحمان کہا جاتا تھا تشکیل دیا ۔ گونگلیوں سے مٹی جھاڑنے کیلئے ان کے ساتھ دو بنگالی ججوں کو بھی شامل کیا گیا لیکن وہ بھی جنرل ایوب کے زیر اثر تھے۔ اگرچہ اگرتلہ سازش شیخ مجیب الرحمن کے برین چائلڈ کو پروان چڑھانے کا اور بنگلہ دیش کو ایک علیحدہ سیکولر ریاست بنانے منصوبہ تھا لیکن اس کی پرورش ایوب خان کی آمریت اور اس سے پہلے خواجہ ناظم الدین، مولوی فضل حق، حسین سہروردی وغیرہ جیسے سرکردہ رہنماں کو کھڈے لائن لگانے اور غدار وطن کے القابات سے نواز کر کی گئی۔ ادھر ایوب خان کے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو اسکا چہیتا وزیر خارجہ تھا نے ایوب کو چھوڑ کر لاہور میں 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا اور بھٹو کی سحر انگیز شخصیت نے بہت کم عرصے میں اس پارٹی کو مغربی پاکستان کی ایک مقبول سیاسی جماعت بنا دیا۔ ایوب خان اب اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہو گیا اور بھٹو ایوب خان کو نکالنے کیلئے میدان عمل میں نکل چکا تھا یہ صورتحال مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کیلئے بہت سازگار تھی۔ اس نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور 1969 میں ایوب کو مجبوری کی حالت میں اگرتلہ سازش کیس واپس لیکر ختم کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنا اقتدار بچانے میں ناکام ہو گیا اس نے ایک بار پھر جنرل یحی خان کو مارشل لا لگانے کی دعوت دی اور یوں ایک نئے چہرے کے ساتھ مارشل لا لگا دیا گیا۔ بھٹو اور شیخ مجیب جمہوریت پسند بن کر سامنے آئے۔ دسمبر 1970 میں عام انتخابات ہوئے اور مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کو مکمل جیت مل گئی اور اس طرح دونوں اکائیوں کی علیحدگی راہ اور بھی ہموار ہو گئی۔ بھٹو اور مجیب کی لڑائی بڑھتی گئی، مکتی باہنی ، سیوسینا ، بھارت اور شیخ مجیب اگرتلہ منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مکمل تیاری کر چکے تھے۔ دسمبر 1971 میں بھارت نے باقاعدہ شیخ مجیب کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ کر دیا اور پاکستان کی وہ فوج جو مغربی پاکستان سے تھی اسکو جنرل ضیاالرحمان جو بنگالی تھے جیسے اپنی ہی فوج سے بھی لڑنا پڑا اور یہ حقیقت ہے کہ ایسی صورتحال میں جنگ جیتنا ممکن نہیں ہوتا پاکستان کو شکست ہوئی اور 1972 کے اوائل میں ہی بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہو گیا اور اگرتلہ والوں نے ڈھاکہ میں جشن فتح مناتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ بھارتی فوج نے بنگلہ دیش کو خوب لوٹا بڑی بڑی ملوں کی مشینری بہار منتقل کر دی گئی سیکولر ہونے پر مغربی بنگال سے کئی ہندو گھرانے دوبارہ مشرقی بنگال یعنی بنگلہ دیش میں دوبارہ آباد ہو گئے۔ جماعت اسلامی اور دیگر پاکستان کی یا اسلام کی حمایت کرنے والی جماعتوں کو ختم کر دیا گیا اور بے شمار کو قتل کر دیا اور اس طرح بنگلہ دیش کا عنان اقتدار شیخ مجیب الرحمن کو مل گیا ۔ لیکن فطرت کا اپنا کام ہوتا ہے شیخ مجیب کو یہ اقتدار زیادہ دیر راس نہ آیا اور بھارتی یوم آزادی کے دن 15 اگست 1975 کو مشتاق احمد کی سربراہی میں ایک فوجی دستے نے شیخ مجیب کے گھر حملہ کر کے اس گھر میں موجود تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ جس میں شیخ مجیب، اسکی بیوی، اسکا بیٹا، بھائی اور دیگر قریبی رشتہ دار شامل تھے۔ یوں ایک بار بنگلہ دیش بھی مارشل لا کی زد میں آ گیا۔ لیکن عین اس وقت شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ اپنے شوہر واجد علی کے ساتھ لندن میں اپنی بہن کے ہاں گئی ہوئی تھی اس لئے قتل سے بچ گئی۔ شیخ مجیب الرحمن وہ قابل اعتماد بھارتی پالتو بچہ تھا اس لئے بھارتی حکومت شیخ حسینہ کو بھارت لے آئی اور انتہائی سیکیورٹی میں نامعلوم مقام پر رکھا لیکن بھارتی ایجنسیوں کے ذریعے شیخ حسینہ بنگلہ دیشی عوامی لیگ کے قابل اعتبار زعما سے رابطے میں رہی اسی کی دہائی میں شیخ حسینہ واجد کو عوامی لیگ کا باقاعدہ چیئرپرسن منتخب کروا لیا گیا اور بھارت کی مدد سے وہ بنگلہ دیش میں داخل ہوئیں اور مارشل لا کے خلاف جدوجہد کو ہتھیار بنا کر اعلان کیا کہ وہ اپنے باپ کے ادھورے مشن کو پورا کرے گی۔ بنگلہ دیش میں کیونکہ کوئی دیگر پارٹی اپنی جڑیں مضبوط نہ کر سکی تھی اور خالدہ ضیا جو جنرل ضیاالرحمان کی بیوہ تھی وہ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کو لیڈ کر رہی تھی کیونکہ انکو ان کے شوہر کے قتل کی ہمدردی حاصل تھی۔ دو بیگمات دونوں میں سے ایک باپ اور دوسری کو شوہر کے قتل کی بنا پر ہمدردی حاصل تھی۔میدان سیاست میں موجود تھیں۔ حسینہ واجد الیکشن جیت کر مسند اقتدار پر براجمان ہوئی اپنے باپ کے قتل کا مقدمہ درج کروایا۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگائی بہاریوں کی زندگی اجیرن کی اور قتل کا بازار گرم کیا انتقام کی آگ بھڑکائی ہر وہ شخص قابل قتل ٹھہرا جو پاکستان سے محبت یا ہمدردی رکھتا تھا۔ لیکن شیخ حسینہ کے اس رویے سے عوام میں وہ غیر مقبول ہو گئیں اور الیکشن ہار گئی لیکن ایک عشرہ بعد وہ 2009 میں دوبارہ برسر اقتدار آ گئی اور اب کی بار انہوں نے اپنے علاوہ سب کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ پھانسیاں پابندیاں سب شروع ہوئیں اور تمام مخالف سیاسی جماعتوں پر برا وقت شروع ہو گیا جماعت اسلامی پابندی کی زد میں آئی اور خالدہ ضیا کو جیل بھیج دیا گیا اور پھر اکیلے ہی الیکشن جیتنا شروع کر دیئے۔ پندرہ سال مسلسل اگرتلہ نظریہ سر چڑھ کر بولتا رہا بلکہ سر تن سے جدا کرتا رہا ۔ 2004 میں ایک بار پھر الیکشن ہوئے جس میں واحد حسینہ واجد کی جماعت نے حصہ لیا اور ظاہر ہے اکیلے الیکشن لڑ رہی تھی تو جیت بھی یقینی تھی اس طرح چوتھی بار حسینہ نے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا اور کچھ ایسے فیصلے کئے جو عوام کیلئے تکلیف دہ تھے طلبہ نے کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرے کئے لیکن دراصل غیر جمہوری الیکشن، ڈکٹیٹر شپ کی انتہا اور اگرتلہ نظریہ کی ناکامی وہ وجوہات تھیں جس نے عوام کے دل میں نفرت بھر دی تھی۔ بنگلہ دیش کا بھارت کی کالونی بن جانا عوام کو منظور نہ تھا۔ اور پھر آگ تو مودی لگا چکے تھے جب 2021 میں دورہ بنگلہ دیش پر انہوں نے اپنے جذباتی خطاب میں کہا کہ بنگلہ دیش کو ہم نے آزادکروایا ہم نے اسکی آزادی کیلئے اپنا رت(خون) دیا فوج بھیجی پاکستان سے جنگ کی ۔ یہ سب باتیں تمام بنگلہ دیشیوں کے قابل قبول نہیں تھیں کیونکہ بنگالی رہنماں نے انگریزوں سے آزادی کیلئے سب سے زیادہ جانی مالی نقصان اٹھایا تھا اور بڑے بڑے لیڈر بنگالی تھے اب وہ مودی کی غلامی کیسے قبول کر سکتے تھے۔ یہ لاوہ پکتا رہا حسینہ واجد کی رعونت بڑھتی گئی اور پھر رسی ختم ہو گئی اور سرے پر گانٹھ آ گئی۔ آرمی چیف نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا اور حسینہ کو استعفی دینے کا کہا گیا اور اس کے بعد فوری ملک چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ حسینہ سے یہ سب جلدی میں کروایا گیا کیونکہ عوام بپھر چکی تھی اور حسینہ واجد بنگلہ دیش چھوڑ کر اگرتلہ سدھار گئیں اب وہ بھارت میں کسی نامعلوم مقام پر موجود ہے لیکن اگرتلہ نظریہ اگرتلہ سے شروع ہو کر اگرتلہ پر ختم ہو چکا ہے۔ بنگلہ دیش میں مائکروفنانس ” گرامین” بینک کے بانی اور پروفیسر ڈاکٹر یونس جنکو حسینہ نے ملک سے نکال دیا تھا اور وہ پیرس میں تھے کی تین سالہ سزا ختم کر کے واپس بلایا گیا ہے اور انہوں نے عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے ان کے ساتھ ان کے مشیران نے بھی حلف اٹھا ہے اور بنگلہ دیش میں اس وقت ایسے الیکشن کا مطالبہ ہے جو اصل جمہوری انتخابات ہوں صاف ہوں شفاف ہوں قانون کے مطابق ہوں اور ہر قسم کی دھاندلی بے ایمانی سے پاک ہوں۔ بنگلہ دیشی بہت محنتی لوگ ہیں۔ گرامین اور براک وہ برانڈ ہیں جو کسی بڑے سیاست دان، صنعت کار یا سرمایہ دار کے نہیں ہیں بلکہ پروفیسر یونس اور حامد رضا جیسے عام لوگوں کے ہیں جنہوں نے دنیا کو حیران کر دیا ۔ بنگلہ دیشی ساری دنیا میں محنتی ہونے کی بنا پر جانے جاتے ہیں اس لئے جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اب بنگلہ دیش کی معیشت بیٹھ جائے گی یہ انکی بھول ہے یا یہ بات وہ کسی ایجنڈے کے تحت کر رہے ہیں۔ اگر ایک حقیقی جمہوری حکومت بنگلہ دیش کا اقتدار سنبھالتی ہے تو اسکی معیشت بہتر ہوگی کیونکہ اس کے پاس انتقام لینے کی فکر یا اگرتلہ نظریہ نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف بنگلہ دیش کے معاشی، معاشرتی اور ترقیاتی منصوبوں کا ایجنڈا ہو گا۔