تحریر : شکیلہ فاطمہ
ایران نے تیرہ اور چودہ اپریل کی شب پہلی بار اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا۔ اس حملہ میں ڈرونز، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل شامل تھے اور ان کی کل تعداد 330 بتائی جا رہی ہے۔ بظاہر یہ ایک ایک بڑا حملہ تھا اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کو ایک بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا لیکن اسرائیل اور آزاد ذرائع کے مطابق اسرائیل کو کوئی قابل ذکر نقصان نہیں ہوا اور اسرائیل نے اس حملے کو ناکام کرنے کا دعوی کیا ہے۔ ایران نے یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے یکم اپریل کو ایران کی شام کے دارالحکومت دمشق میں قائم سفارت خانے پر حملے کے جواب میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت حق دفاع کو استعمال کرتے ہوئے کیا جس کا ایران بار بار کہہ رہا تھا کہ بدلہ لے گا اور یاد رہے ایران کا اسرائیلی حملے میں اہم کمانڈر سمیت کافی جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے ایرانی حملے میں استعمال کئے گئے 200 ڈرونز 100 کروز میزائل اور 30 بیلسٹک میزائل اسرائیل کی دفاعی تنصیبات کا نہ کوئی نقصان کر سکے اور نہ ہی کوئی کمانڈر مارا گیا ؟ ایران نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے امریکہ اور خطے کے دیگر ممالک کو 72 گھنٹے پہلے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ اسرائیل پر کس نوعیت کا حملہ کب اور کس وقت کرنے جا رہا ہے۔ اس لئے امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ نے دفاعی نظام کو متحرک کر دیا اور ایران کے نوے فیصد سے زیادہ ڈرونز اور میزائل اسرائیلی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کر دیئے گئے۔ ان ڈرونز کو اردن، شام اور عراق کی حدود میں دفاع نظام کے ذریعے تباہ کر دیا گیا۔ امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کے دفاع کی ذمہ داری لے رکھی ہے اور جب 72 گھنٹے پہلے ہی امریکہ کو ایران نے حملے کا سارا پلان بتا دیا تو ان کی طرف سے تمام دفاعی انتظامات مکمل کر لئے گئے تھے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ ایران نے 330 پروجیکٹائلز فائر کر کے ضائع بھی کئے لیکن اسرائیل کو کوئی نقصان بھی نہ ہوا یہاں تک کہ ایران کا جتنا نقصان دمشق میں اس کے سفارتی مشن پر اسرائیلی حملے کیوجہ سے ہوا تھا اسکا چوتھائی بھی وہ بدلہ نہ چکا سکا تو پھر اس حملے کا مقصد کیا تھا اور ایران نے اس سے حاصل کیا کیا۔ ؟ یہ تو ایسے ہی ہوا کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ ایران کا امریکہ کو اس حملے کی نوعیت سے پہلے ہی آگاہ کرنے کے کیا مقاصد تھے ؟ ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ امریکہ ایرانی مفادات پر حملہ نہ کرے اور دوسرا بجا طور پر یہی تھا کہ حملے کے دفاع کا بندوبست کر لیا جائے۔ اس طرح ایران اپنی عوام کو یہ بتا کر کہ اس نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا ہے خوش کر لے گا اور اسرائیل امریکہ اور دیگر اتحادی حملے کا دفاع کر کے اسرائیل کا نقصان ہونے سے بچا لیں گے اور اسرائیل اپنی عوام کو پیغام دے سکے گا کہ اسکا دفاع ناقابل تسخیر ہے اور اس نے ایرانی حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔ اس طرح ایرانی اور اسرائیلی دونوں حکومتیں اپنے عوام کو خوش اور مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ اور ایسے ہی ہوا۔ لیکن اس کے دور رس نتائج کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اسکی سابقہ تاریخ بھی یاد رکھنا ہوگی۔ 1948 میں فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کو آباد کیا گیا اور پھر عرب ملکوں نے 1967 میں مل کر اسرائیل جو اس وقت ایک نوزائیدہ بچہ تھا کے خلاف جنگ لڑی اور نتیجے میں سب عرب اتحاد نہ صرف جنگ ہار گیا بلکہ اسرائیل نے مغربی کنارے ، غزہ، شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں سمیت لبنان، اردن اور مصر کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا جن میں سے مصر اور اردن کو کچھ علاقے واپس کر دیئے گئے اور تب سے فلسطینیوں کی زندگی ایک جبر مسلسل میں گزر رہی ہے۔ بعد ازاں جب 1979 میں ایران میں انقلاب آیا تو ایران اسرائیل دشمنی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ایران نے لبنان، شام اور دیگر مشرق وسطی کے ممالک میں اپن پراکسیز بنائی اور اسرائیل کے خلاف انکو استعمال کرنا شروع کیا اور جب نیتن یاہو اسرائیل کے وزیر دفاع تھے تو اس وقت سے ان کے اندر ایران دشمنی بھری ہوئی تھی اور اسکی خواہش اور کوشش رہی کہ وہ ایران جو اس وقت اپنی جوہری توانائی کا پروگرام شروع کر چکا تھا ، پر حملہ کر کے انکو تباہ کر دے۔ لیکن بوجوہ وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن وہ ایران پر امریکی پابندیاں لگوانے میں کامیاب رہا۔ جب نیتن یاہو اسرائیل کا وزیراعظم بنا تو ایران کے خلاف اسی نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا اور اس نے ایران کے مفادات پر حملے کروانا شروع کر دئیے ایران کے کئی نامور کمانڈر مارے گئے لیکن ایران ہمیشہ بدلہ لینے کا دعویدار رہا لیکن کاروائی اپنی پراکسیز جیسے حزب اللہ وغیرہ کے ذریعے جوابی کاروائی کرتا رہا۔ اب جب اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارتخانے کو حملے سے اڑایا گیا تو ایران کیلئے لازم ہو گیا کہ وہ کسی طرح جواب دے۔ چودہ دن سوچ بچار کے بعد ایران نے بظاہر ایک بڑا لیکن محفوظ حملہ کیا جس سے ایرانی عوام بھی خوش ہو گئے اور اسرائیل نے اس حملے کو ناکام بنا کر خوش ہو گیا۔ لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر کو غزہ پر حکومت کرنے والے گروپ حماس نے کیوں حملہ کیا ؟ اور اسرائیل نے اسکو روکا کیوں نہیں تھا ؟ بظاہر لگتا ہے کہ اسرائیل نے اسکو نہ روک کے غزہ اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے اور انکی نسل کشی کا جواز پیدا کیا تھا۔ یہ جواز اسکو کیوں دیا گیا کیا اس حملے میں بھی ایرانی ہاتھ تھا۔ اور چونکہ حزب اللہ نے حماس کا ساتھ دیا اس لئے ممکنہ طور پر ایران اس مشاورت میں شامل تھا اور حوثی باغی جو سعودی عرب کے خلاف برسر پیکار تھے وہ بھی اس میں شامل ہو گئے اور لال ساگر(ریڈ سی) میں اسرائیلی جہازوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا اور اس دوران ایران نے اچانک سے سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے اور حوثی باغی بھی سعودی مخالفت سے پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن میرے لئے ابھی بھی یہ ایک سنجیدہ سوال جواب طلب ہے کہ 330 پروجیکٹائلز فائر ہوئے جو اربوں روپے مالیت کے تھے اور تباہ ہو گئے لیکن نقصان ایک لاکھ کا بھی نہ کر سکے۔ اگرچہ دفاعی نظام جو ان کو تباہ کرنے میں چلایا گیا وہ بھی اربوں روپے کا تھا لیکن اس میں جہاز اور دفاعی نظام زیادہ تر امریکہ کا استعمال ہوا اور اس کے بعد برطانیہ رائل ائیر فورس استعمال ہوئی اسرائیل کا مالی نقصان کم ہوا۔ اب ایرانی عوام کیوں خوش ہے اور اسرائیلی حکومت کیوں خوش ہے ابھی ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے ہونگے۔ مشرق وسطی کا مسئلہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے اب یہ صرف مشرق وسطی تک محدود نہیں ہے بلکہ اب ایشیا الانئس بمقابلہ ویسٹرن الانئس مقابلہ بن چکا ہے اور مشرق وسطی اور دیگر خلیجی ممالک تاش کی بساط پر بچھے مہرے ہیں۔ اسکا مزید جائزہ اگلے بلاگ میں لیں گے۔ انشااللہ۔ (جاری ہے)