کھوج بلاگ

بنگلہ دیش میں اگرتلہ باقیات کی صفائی شروع

حسینہ واجد نے بھی بھارت سے جاری اپنے پہلے بیان میں عمران خان کی طرح اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر لگا دیا' بنگلہ دیش اپنی تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر کھڑا ہے عبوری حکومت نے سر جوڑ لیا

تحریر: شکیلہ فاطمہ
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد یوں لگتا ہے کہ اگرتلہ اور حسینہ باقیات کی صفائی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ہفتہ کو فل کورٹ اجلاس بلا لیا جسکا طلبا کو پتہ چل گیا کیونکہ چیف جسٹس عبوری سیٹ اپ کو غیر آئینی قرار دینے کا ارادہ رکھتے تھے طلبا نے سپریم کورٹ کا فوری گھیرا کیا اور دن ایک بجے تک چیف جسٹس عبیدالحسن اور ان کے پانچ ہم خیال ججوں، جو حسینہ نواز تھے کو مستفعی ہونے الٹی میٹم دے دیا۔ جس کے نتیجے میں چیف اور دیگر پانچ ججوں کو مستعفی ہونا پڑا اور اس طرح بنگلہ دیشی عوام اور طلبا نے سپریم کورٹ کو ( Judicial coup) سے روک دیا۔ یعنی عدالتی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا۔ اس بغاوت کا خدشہ اس لئے بھی موجود تھا کیونکہ بنگلہ دیش کے آئین میں عبوری حکومت سے متعلق کوئی کلاز موجود نہ ہے۔ اور قبل از وقت کسی صورت میں حکومت ختم ہونے پر 90 دن میں الیکشن کرانے کا کہا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے گھیرا ؤکے دوران ایک طالب علم رہنما نے کہا کہ وہ عدلیہ میں کرپٹ اور سیاسی جج نہیں چاہتے اس لئے حسینہ نواز جج فوری استعفے دیں۔ عبیدالحسن اور ساتھی ججوں کے فارغ ہونے کے بعد سید ریفات احمد نے چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اس سے پہلے ترکی میں عوام نے فوجی بغاوت کو ناکام بنایا تھا اب بنگلہ دیش میں عدالتی بغاوت کو ناکام بنایا گیا ہے۔ 5 اگست کو جب اگرتلہ نظریہ کی وارث حسینہ واجد ملک چھوڑ کر بھارت بھاگ گئی تو تقریبا تین دن تک ملک عملی طور پر بغیر حکومت کے چلایا گیا جس کے بعد بنگلہ دیش میں "غریبوں کا بینکار” کے نام سے مشہور ، نوبل انعام یافتہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق استاد ڈاکٹر یونس کو پیرس سے بلایا گیا اور انہوں نے بنگلہ دیش کے عبوری سیٹ اپ میں چیف ایڈوائزر کے طور پر حلف اٹھایا اور ان کے ساتھ دیگر مشیران نے بھی حلف اٹھا، حلف اٹھانے والوں میں ٹیکنوکریٹس کے ساتھ طلبا لیڈرز ناہید اسلام اور آصف محمود نے باالترتیب مشیران وزارت مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی اور امور نوجوانان و کھیل حلف اٹھایا۔ ان کے ساتھ عادل الرحمان جو ایک مشہور سماجی کارکن اور انسانی حقوق پر کام کرتے ہیں جنکو حسینہ واجد کے دور میں دو سال جیل کی سزا دی گئی کو وزارت صنعت دی گئی ہے۔ ان کے علاوہ عبوری کابینہ میں سینٹرل بنک کے سابق سربراہ، ایک سابق سیکرٹری خارجہ، ایک ماحولیاتی ماہر قانون، ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل اور ایک ہندو کمیونٹی سے شامل کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے آرمی چیف قمرالزمان نے فوج میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں اور حسینہ واجد کے انٹیلیجنس سربراہ جنرل رحمان کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اس کے بھی کئی فوجی افسران اور سول بیوروکریٹس جو حسینہ واجد کے حمایتی تھے کو نکال دیا گیا ہے۔ مرکزی بنک کے سربراہ کو بھی گھر بھیج دیا گیا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ بنگلہ دیش جمہوری ملک ہونے کے باوجود سنگل پارٹی حکومت تھی جو حسینہ کے بھاگنے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی اور پھر عوامی لیگ کے وزرا اور دیگر لیڈران انتہائی پریشان تھے کہ وہ کیا کریں ان کے اہم وزرا کو بھاگنے کی کوشش میں ڈھاکہ اور چٹاگانگ ایئرپورٹس سے گرفتار کر لیا گیا۔ کئی مارے گئے اور باقی زیرزمین چلے گئے۔ ان میں دو کرکٹرز بھی تھے جن میں شکیب الحسن بھی تھے اور انہیں عمران خان کی طرح شوق سیاست و حکمرانی بھی تھا وہ عوامی لیگ کے ٹکٹ پر ممبران اسمبلی تھے ابھی تک لاپتہ ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش ایک مکمل جمہوری ملک بنتا ہے یا پھر کسی ڈکٹیٹر کی بیوہ کے پاس چلا جاتا ہے اس وقت بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اس پر غور و فکر کر رہی ہے کہ کیا کیا جائے الیکشن کروائے جائیں یا اصلاحات کی جائیں۔ بنگلہ دیشی عوام اور طلبا رہنماں کا خیال ہے کہ اصلاحات کے بغیر انتخابات بے معنی ہونگے اور وہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہونگے۔ طالب علم لیڈر ناہید اسلام نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ طلبا انقلاب کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ شیخ حسینہ کو واپس لایا جائے انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف ان کے دور حکومت میں ہونے والے مظالم اور ہلاکتوں پر مقدمہ چلایا جائے۔ ایک اور طالب علم ابوبکر نے بھی یہی مطالبہ کیا۔ ناہید اسلام نے کہا کہ الیکشن کے بارے میں وہ فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے انکی ترجیحات میں صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ سابقہ حکومت کے دور میں ہونیوالی کرپشن کی تحقیقات کروانا اور انتخابات سے قبل آئینی اور انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے اس لئے وہ ابھی انتخابات کے بارے واضح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ مجیب ڈائنیسٹی اور اسکی باقیات کی صفائی ان اصلاحات کا لازمی حصہ ہے۔ ناہید اسلام نے کہا کہ وہ بھارت سے لڑائی نہیں چاہتے لیکن بھارت کو بھی اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ادھر ڈاکٹر یونس نے کہا ہے بھارت کے بنگلہ دیش کے برے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ادھر آج بروز اتوار شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش سے بھاگنے کے بعد بھارت سے اپنے پہلے بیان میں اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا ہے جیسے پاکستان میں عمران نے اپنے خلاف عدم اعتماد کے بعد الزام امریکہ پر لگایا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان نے اڈے دینے سے انکار کے نتیجے میں ایک سائفر لہرا کے الزام لگایا تھا اور شیخ حسینہ واجد نے سینٹ مارٹن جزیرہ پر اڈہ نہ دینے پر بغیر کوئی خط دکھائے یہ الزام لگایا ہے۔ لیکن شیخ حسینہ واجد چونکہ ایک شاطر سیاست دان کی بیٹی ہے اور بھارتی تربیت یافتہ اگرتلہ نظریہ کی وارث اس لئے وہ عمران خان کے مقابلے میں ایک زیرک سیاست دان تھی وہ امریکہ کو چین سے ڈراتی تھی اور چین کو بھارت اور امریکہ سے ڈراتی تھی اور بھارت کو چین اور بنگلہ دیش سے مشرق میں عیسائی ریاست کے قیام کا نام لیکر ڈراتی تھی ۔ اب بھی چونکہ وہ بھارت میں ہے اس لئے اس نے بیان دیا ہے کہ امریکہ نے اس سے جزیرہ سینٹ مارٹن جو خلیج بنگال میں میانمار کی جانب واقع ہے امریکی اڈہ بنانے کیلئے مانگا تھا تاکہ وہ بھارت اور چین پر نظر رکھ سکے لیکن وہ بھارت کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتی تھی اس لئے امریکہ کو انکار کر دیا اور امریکہ نے اسکا انتقام لیا ہے۔ بنگلہ دیش کے آئین جو 1972 میں بانی اگرتلہ نظریہ نے بنایا تھا اس میں بنگلہ دیش اسلامی ملک ہونے کے باوجود سرکاری نام عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش ہے اور اس آئین میں کسی عبوری حکومت کو تصور موجود نہیں ہے البتہ اگر حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور اسمبلی قبل از وقت توڑ دی جائے تو اقتدار میں بیٹھی حکومت ہی 90 دن میں الیکشن کروائے گی۔ لیکن اگر عبوری سیٹ اپ بن گیا ہے تو پھر الیکشن بھی لیٹ ہو سکتا ہے اور اب سپریم کورٹ کو بھی بنگلہ دیش کا سوچنا ہوگا اور اگرتلہ نظریہ جسکا فائدہ صرف شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان اور اولاد کو ہوا سے ترک تعلق کرنا ہوگا۔ اور عوامی امنگوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ بنگلہ دیش میں جولائی میں ہنگامے اس وقت شروع ہوئے جب شیخ حسینہ نے ملامتوں میں کوٹہ سسٹم کا فیصلہ ہائی کورٹ سے اپنے حق میں کروایا اس کوٹہ سسٹم کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ بنگلہ دیش بنانے والوں کی اولاد کیلئے مختص کیا گیا جس پر طلبا ردعمل آیا کیونکہ اس سے صرف اور صرف اگرتلہ نظریہ والے ہی ملازمت کے مستحق تھے اور شیخ حسینہ کے پاس ایسا اختیار تھا جس سے وہ اپنے ہمدرد خیر خواہ اور رشتے داروں کو خوب نواز سکتی تھی۔ اس احتجاج کو اس وقت زندگی ملی جب ایک طالب علم ابوسعید کو پولیس نے سینے میں گولی مار دی۔ اس نوجوان نے اپنی جان دیکر بنگلہ دیش کو اگرتلہ سے آزادی دلوا دی۔ اب عبوری حکومت اور طلبا اگرتلہ باقیات کو تلاش کر کے دفاتر سے نکال باہر کر رہے ہیں اور صفائی کا عمل شروع ہو چکا ہے یہ صفائی آپریشن کب پورا ہوگا اس کے بعد ہی الیکشن ہوگا۔ کیونکہ اصلاحات کے بغیر انتخابات ایک بے معنی اور فضول مشق ہوگی ، یہ عبوری حکومت اور بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت کی سوچ ہے۔ سب سے مثبت پہلو جو مجھے بنگلہ دیش کے اس انقلاب میں نظر آیا ہے وہ یہ کہ فوج نے نہ تو خود اقتدار سنبھالا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے ججوں کو اقتدار پر قابض ہونے دیا ہے اس وقت تک فوج نئے بنگلہ دیش کی تشکیل کیلئے طلبا عوام اور دیگر صاحب الرائے افراد اور عبوری حکومت کو مکمل مدد فراہم کر رہی ہے اور لگتا ہے کہ اب کی بار بنگلہ دیش ایک مکمل آزاد خود مختار جمہوری ملک کے طور پر ابھرے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button