تحریر: ملک محمد سلمان
24کروڑ کی آبادی میں تو آٹھ کروڑ یوٹیوب،پانچ کروڑ فیس بک اور چھے کروڑ ٹک ٹاک صارفین ہیں جبکہ پاکستان میں ٹویٹر(X)صارفین کی تعداد پچاس لاکھ سے بھی کم ہے۔جن میں سے تیس لاکھ فری لانسرز ہیں جبکہ دس لاکھ آئی ٹی بزنس سے وابستہ ہیں۔فری لانسرز دنیا جہاں کی فکروں سے دور دن رات کمپیوٹر سکرین کو سامنے رکھ کہ روبوٹ کی طرح کام کررہے ہوتے ہیں۔ یہ اتنی بے ضرر اور غیر سیاسی مخلوق ہے کہ ان میں سے زیادہ طرح کو ملکی سطح کی اہم شخصیات کے نام تک نہیں معلوم۔یہ فری لانسرز بروقت آرڈر کمپلیٹ کرنے کیلئے اس قدر جذباتی ہوتے ہیں کہ سامنے پڑا کھانا نہیں کھاتے کہ آرڈر ٹائم پر دینا ہے نہیں تو ریٹنگ ڈاؤن ہوجائیگی۔پاکستان کے کل ٹویٹر صارفین کا 80فیصد جن کا سیاست یا کسی بھی قسم کی منفی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ بھی انٹرنیٹ بندش اورسلونیٹ کی بدولت اپنے کلائنٹ ضائع ہونے کے بعد ویلے بیٹھ کے حکومت کو گالیاں دے رہے ہیں اور پاکستان چھوڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔20فیصد ایکٹو سیاسی صارفین میں سے بھی سارے حکومت مخالف نہیں تھے لیکن اب نہ صرف 80فیصد ایکٹو صارفین بھی حکومت کی ناکام پالیسیوں پر تنقید کرہے ہیں بلکہ یہ وہ نوجوان تھے جو ایک لاکھ سے پچاس لاکھ تک ماہانہ کمانے والے تھے۔وزیر اعظم کو بار بار یہ باور کروارہاہوں کہ چاپلوس اور شارٹ کٹمائند وزراء کی نااہلی کی قیمت آپکو ادا کرنا ہوگی۔جس ملک میں پہلے ہی نوجوان فاقہ کشی کررہے ہیں وہاں آپ اچھی خاصی کمائی کرنے والے تیس سے چالیس لاکھ افراد کو ڈائریکٹ بے روزگار کررہے ہیں وہیں پر ہر طرح کے آن لائن بزنس کو تباہ کرکے ملکی معیشت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔انٹرنیٹ بندش سے تعلیم اور روزگار سمیت تمام محکمے اور افراد متاثر ہورہے ہیں۔حکومت خاص طور پر اداروں پر تنقید کرنے والوں کی اکثریت بیرون ملک سے یہ سب کررہے ہیں۔باہر بیٹھے ناقدین کی سزا سارے پاکستان کو کیوں دے رہے ہیں؟ حکومت کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے انٹرنیٹ سلو اور سوشل میڈیا کی بندش کا الٹا نقصان یہ ہوا کہ پہلے جو لوگ آئی پی ایڈریسکی وجہ سے پکڑے جاسکتے تھے وہ بھی وی پی این لگانے کے بعد اداروں کی پہنچ سے بہت دور نکل چکے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں وزیر مشیر ایسے مشورے دیتے تو نہ صرف انکو اقتدار کی مسند سے اتارا جاتا بلکہ ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرنے جیسی مجرمانہ غفلت پر پابند سلاسل کردیا جاتا۔انہیں نااہل اور نکمے مشیروں کے کارناموں کی بدولت حکومت روز بروز عوامی حمایت کھو رہی ہے۔اوورسیز پاکستانیوں میں مقبولیت کم ہوتے ہوتے زیرو پر آنے کے قریب ہے لیکن عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنے کی بجائے اپنے پاں پر کلہاڑی مارے جارہے ہیں۔ملکی سلامتی کے اداروں سے گذارش ہے کہ خدارا آپ اپنا کردار ادا کریں اور حکومت وقت کو عقل کا مشورہ دیں کہ اس طرح کی حرکات سے ملکی معیشت کا پہیہ جام نہ کریں لوگ مر جائیں گے یا خود مرتے مرتے حکمرانوں کو مارنے پر آجائیں گے۔لوگوں کا رزق نہ چھینیں،انہیں بے روزگار اور ویلا کرکے گالیاں دینے پر مجبور کرنے کی بجائے انہیں کام کرنے دیں۔واٹس ایپ وائس نوٹ، تصویر اور ویڈیو نہسینڈہورہی ہے اور نہ ہی ڈان لوڈہو رہی ہے۔کیا ایسا کرنے سے تنقید میں کوئی کمی آئی؟ ہرگز نہیں الٹا تنقید اور گالیوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ سلو کرنے سے آئی ٹی کا کام ٹھپ ہوکہ رہ گیا ہے کیونکہ آئی ٹی کمپنیوں کیلئے ہائی سپیڈ انٹرنیٹ ناگزیر ہے۔سائبرکرائم اور ڈیجیٹل دہشت گردی روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان ڈیجیٹل دہشت گردوں کو پاتال سے بھی تلاش کرنا پڑے تو نکالا جائے اورکڑی سے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنا دیں۔بیرون ملک سے پاکستان میں زہر گھولنے والے ڈیجیٹل دہشت گردوں کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کیے جائیں۔جس بھی ملک میں بیٹھ کر یہ پاکستان میں نفاق کی سیاست کررہے ہیں انکو وہاں سے گھسیٹ کر لایا جائے اور وطن عزیز کے غداروں کو چوک چوراہوں میں سزائیں دی جائیں۔متحدہ عرب امارات جیسے قوانین لاگو کرنا ہونگے جہاں سوشل میڈیا تو درکنار کوئی ہوٹل، ریسٹورنٹ اور گھر کی چار دیواری میں بھی اداروں پر تنقید کا نہیں سوچ سکتا۔ڈیجیٹل دہشت گردوں کو بھی طالبان کی طرح نیست و نابود کرنا ہوگا۔ڈیجیٹل دہشت گردی کی روک تھام کیلئے جدیدڈیجیٹل فرانزک لیببنائی جائیں۔سائبر کرائم کو ونگ کی بجائے آزاد اور با اختیار ایجنسی بنایا جائے۔ڈیجیٹل دہشت گردوں کی سہولت کاری کرنے والے سائبر کرائم کے افسران کو بھی سہولت کاری کی ایسی سزا دی جائے کہ آئندہ کو بھی آفیسر ڈیجیٹل دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا سوچ بھی نہ سکے۔سائبر کرائم کے کرپٹ افسران کو جبری ریٹائرڈ کرکے رافع بلوچ جیسے ٹاپ ایتھیکل ہیکرزاورآرٹیفیشل انٹیلیجنس ایکسپرٹس کی خدمات لی جائیں۔