حکومت رواں مالی سال کےلیےاہداف حاصل نہیں کر سکی؟
ملک میں زرعی ترقی کی رفتار سب سے زیادہ چھ فی صد سے اُوپر رہی۔ اور اسی وجہ سے شاید زرعی معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا گیا ، گندم اب تک کھیتوں میں پڑی ہے اور اور کسان رو رہا ہے
لاہور(تحریر ،شکیلہ فاطمہ) حکومتِ پاکستان کے وزیر خزانہ نے منگل کو اقتصادی سروے پیش کیا ہےجس کے مطابق حکومت رواں مالی سال کے لیے اہداف حاصل نہیں کر سکی۔ البتہ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ملک میں زرعی ترقی کی رفتار سب سے زیادہ چھ فی صد سے اُوپر رہی۔ اور اسی وجہ سے شاید زرعی معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا گیا ، گندم اب تک کھیتوں میں پڑی ہے اور اور کسان رو رہا ہے ادھر شوگر ملوں کے مالکان کے فائدے کیلئے چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے ، یاد رہے چینی کے اکثریتی کارخانے اس وقت حکومتی شخصیات کی ملکیت ہیں۔
وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ گزشتہ سال ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر تھے اور قومی خزانے میں محض دو ہفتے کی درآمدات کے پیسے بچے تھے۔ لہذا اس وقت کے وزیر خزانہ کو انہوں نے جھوٹا کہا۔ جو اس کے برعکس پلان بی وغیرہ کے نعرے لگا رہے تھے۔ وزیر خزانہ کے مطابق ملک میں معاشی ترقی کی رفتار 2.38 فی صد رہی جب کہ حکومت نے اس سال 3.5 فی صد کا ہدف مقرر کیا تھا۔ تاہم یہ رفتار گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ رہی جب ملکی معیشت نے محض 0.39 کی رفتار سے ترقی کی تھی۔اسی طرح ملک میں کپاس اور گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ لیکن مکئی اور گنے کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ مہنگائی بڑھنے کی سالانہ اوسط رفتار 26 فی صد رہی اور حکومت نے اس کا ٹارگٹ 21 فی صد مقرر کیا تھا۔
اقتصادی سروے آف پاکستان کے مطابق ملک میں صنعتی اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کی شرح کا ہدف حاصل نہ ہو سکا اور یہ شرح مایوس کن رہی جو تقریبا ایک فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
ملک کی فی کس آمدنی 1680 امریکی ڈالر ریکارڈ کی گئی ( یہ وزیر خزانہ کا دعوی ہے ) جب کہ سرمایہ کاری کی شرح جی ڈی پی کا 13 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت رواں سال جاری کھاتوں کے خسارے یعنی کرنٹ اکاونٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیاب رہی ہے۔
گزشتہ مالی سال یعنی 2023-2022 کے دوران پاکستانی روپیہ 29 فی صد گراوٹ کا شکار ہوا۔ لیکن رواں سال اس حوالے قدرے استحکام دیکھا گیا۔
اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں نے بھی ایسے اقدامات کیے جس سے روپے کی قدر مستحکم رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ سٹہ بازی جو اس وقت ہو رہی تھی، یہ ملک میں دوبارہ واپس نہ آئے۔ وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی بڑھنے کی شرح گزشتہ سال 38 فی صد سے کم ہو کر اب 11.8 فی صد پر آ گئی ہے۔ امید ہے کہ یہ جلد سنگل ڈیجٹ میں چلی جائے گی۔ مہنگائی میں کمی کے باعث ملک میں شرح سود میں کمی ممکن ہو سکی ہے۔اُن کے بقول ملک میں اس سال ریونیو کلیکشن میں 13 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی پاکستان کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی اور پلان بی موجود نہیں۔
وزیر خزانہ نے اس بات کا یقین دلایا کہ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن سے نئے قرض پروگرام پر بات چیت کافی مفید رہی ہے اور یہ ملک میں جاری تعمیری اصلاحاتی پروگرام ہی کے باعث ممکن ہو سکا ہے۔ انہوں داسو ڈیم کیلئے ورلڈ بینک کیطرف سے ایک ارب ڈالر کے قرض کی نوید بھی سنائی۔ نئے بجٹ سے متعلق اپنی ترجیحات بیان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے ایک بار پھر کہا کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانا ہو گا۔ جب کہ انرجی سیکٹر اور دیگر سرکاری اداروں کے نقصانات کو کم کرنا ہو گا۔ جس کیلئے حکومت نجکاری پروگرام پر تیزی سے عمل کر رہی ہے اور اسی لیے پی آئی اے اور اسلام آباد ایئرپورٹ کی نجکاری پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔
امید ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل اگست تک مکمل ہو جائے گا اور اس کے بعد یہ عمل روکا نہیں جائے گا بلکہ لاہور اور کراچی ایئرپورٹ کو بھی نجی شعبے کے حوالے کیا جائے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک خیرات سے نہیں بلکہ ٹیکس ہی سے چل سکتے ہیں۔ سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا اور توانائی کے شعبے کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے جس میں تقریبا 500 ارب روپے سالانہ کی چوری ہے۔لیکن اب حکومت ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ہمیں ہر ممکن اقدامات کرنے ہوں گے۔
ادھر آج قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کیا جائے گا جس سے لوگوں نے کچھ امیدیں وابسطہ کر رکھی ہیں،تنخواہ دار طبقہ ایک معقول اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ دس سے پندرہ فیصد کا اضافہ کی توقع کیجارہی ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے 25 سے 30 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے اور ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھانے سے گریز کا مشورہ دیا ہے اگرچہ پیپلز پارٹی کا یہ عمل سیاسی زیادہ لگتا ہے لیکن حالات کے مطابق درست لگتا ہے۔
زراعت وہ شعبہ ہے جس نے دراصل ملک کو آج تک دیوالیہ ہونے سے بچائے رکھا ہے لیکن سبسڈی فائدے اور مفادات تاجر انڈسٹری مالکان اور دیگر وہ طبقات سمیٹ لے جاتے ہیں جو ٹیکس دینا پسند ہی نہیں کرتے اور جو پھنسے ہوئے ہیں وہ ٹیکس کے غیر منصفانہ نظام کا شکار ہیں ، وہ ڈائریکٹ ٹیکس دے کر ان ڈائریکٹ ٹیکس کے جال میں بھی اسی طرح پھنس جاتے ہیں جیسے نان فائلر ہوتا ہے دوہرے ٹیکس نے قوم کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ صرف بجلی کے بل میں اتنے ٹیکس لئے جاتے ہیں کہ عام آدمی انکو گن بھی نہیں سکتا۔ بظاہر تھری فیز میٹر کے مطابق بجلی فی یونٹ 35 روپے کے حساب سے بیچی جاتی ہے لیکن کل بل کو استعمال شدہ یونٹ پر تقسیم کیا جائے تو فی یونٹ 70 سے 73 روپے کا بنتا ہے۔ اسی طرح ایڈوانس ٹیکس اتنا لیا جاتا ہے کہ سال بعد جب ریٹرن بھری جاتی ہے تو ہمیشہ اصل سے زیادہ ٹیکس وصول ہو چکا ہوتا ہے جو کبھی واپس نہیں ہوتا۔ اور اس طرح ہمارے اعمال حکومت جاہل عوام سے اپنی پوجا بھی کرواتے ہیں اور عیاشی بھی کرتے ہیں اور یہ عیاشی اتنی دلکش ہے کہ اس کے عوض انہیں کچھ عرصہ جیل جانا پڑے تو بڑے تمطراق سے جاتے ہیں۔ آج دیکھتے ہیں بجٹ جو الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے کیا صرف عوام کے کپڑے اتارتا ہے یا پھر چمڑی بھی ادھیڑ لے گا۔