مخصوص نشستیں، مکمل انصاف یا ایک ناقابل عمل فیصلہ ؟
الیکشن کمیشن نے 41 ارکان کے متعلق سپریم کورٹ سے رہنمائی مانگ لی' الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں پی ٹی آئی کا کوئی عہدیدار نہیں '39 ممبران کو سپریم کورٹ کے حکم پر پی ٹی آئی میں شامل کر دیا گیا
![shakeela fatima](https://i0.wp.com/www.khouj.com/wp-content/uploads/2024/06/shakeela-fatima-1.jpg?resize=716%2C470&ssl=1)
تحریر : شکیلہ فاطمہ
سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق مختصر اکثریتی فیصلے کا جائزہ لیتے ہوئے پچھلے بلاگ میں مندرجہ ذیل چند انتہائی سنجیدہ سوالات اٹھائے تھے :-1۔ کیا آرٹیکل 63 آے بعد اب سپریم کورٹ نے آرٹیکل 51 اور 106 کو بھی دوبارہ لکھا ہے ؟2۔ کیا ان آئینی آرٹیکلز کے علاوہ الیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن 104 اور سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کرنے سے متعلق سیکشنز بھی دوبارہ لکھا گیا ؟ 3۔ کیا ریلیف جو مانگا نہ گیا ہو وہ بھی دیا جا سکتا ہے ؟ 4۔ کیا ریلیف زید مانگے تو زید کی بجائے وہی ریلیف بکر کو دیا جا سکتا ہے ؟ 5۔ کیا الیکشن کمیشن محض ایک مشین کے طور پر کام کرے گا اور اسکو بطور آئینی ادارہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے آئین اور قانون پر عملدرآمد کرانا غیر ضروری ہوگا ؟ 6۔ کیا اگر سپریم کورٹ کسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے لے اور الیکشن کمیشن اس پر عمل کرتے ہوئے وہ نشان بطور جماعت کسی سیاسی پارٹی کو نہ دے تو اسکو فیصلے کی غلط تشریح مانا جائے گا؟ ۔ وغیرہ وغیرہ ‘ اب ایسی ہی صورتحال سامنے آ رہی ہے، ابھی تک تفصیلی فیصلہ جات جاری نہیں ہو سکے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر 39 ممبران کو سنی اتحاد کونسل سے نکال کر پی ٹی آئی کے ممبران بنا دیا ہے، کیا ایسی صورت میں ان لوگوں پر 63 اے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ سب اپنی خوشی سے بلا جبر و کراہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے تھے اور شمولیت کیلئے بیان حلفی جمع کروائے تھے۔ اب ان بیان حلفی کا کیا ہوگا کیا بیان حلفی کی خلاف ورزی کرنے پر فوجداری مقدمہ نہیں بنے گا اور کیا آرٹیکل 63 اے معطل تصور کیا جائے گا اور کیا سپریم کورٹ کو آئین معطل کرنے کا اختیار حاصل ہے ؟ پہلے ہی آرٹیکل 6 کی گونج سنائی دے رہی ہے ایسی صورتحال میں آرٹیکل 63 اے کو کون معطل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن تو یہی کہے گا کہ اس نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیا ہے جیسے افتخار چوہدری نے 12 اکتوبر 1999 کو آئین معطل ہونے پر کہا کہ انہوں نے حکم پر عمل کیا اور دوبارہ حلف لیا لیکن 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی گناہ سمجھی گئی اور اس پر آرٹیکل 6 لگایا گیا لیکن صرف اکیلے آدمی پر کیونکہ مدد کرنے والے اور فائدہ اٹھانے والے تو حکومت میں تھے۔ اب الیکشن کمیشن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک درخواست جمع کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 41 ممبران نے اپنے بیان حلفی اور دیگر دستاویزات سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائی ہیں اور لکھا ہے کہ انکی تصدیق اور ڈیکلریشن پی ٹی آئی کی طرف سے دیا جائے گا جب کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں پی ٹی آئی کا کوئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے اور بیرسٹر گوہر بھی صرف میڈیا پر پی ٹی آئی کے چیئرمین ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں وہ اس رتبے پر فائز نہیں ہیں لہذا ان حالات کے تحت رہنمائی فرمائی جائے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے کون ان دستاویزات کی تصدیق کرے گا ۔ کیا سپریم کورٹ از خود انکو پی ٹی آئی کے تصدیق شدہ قرار دے گی کیونکہ الیکشن ایکٹ میں کوئی ایسی شق موجود نہیں ہے جسکی انکو سپورٹ حاصل ہو۔ اور پچھلے بلاگ میں لکھا گیا تھا کہ اکثریتی مختصر فیصلے کو کسی آرٹیکل یا قانونی شق کی سپورٹ حاصل نہیں ہے بلکہ اسے مکمل انصاف کا نام دیا گیا ہے اور فیصلہ شاید ناقابل عمل ہے۔ مکمل انصاف کرنا تھا تو سارا الیکشن ہی ختم کر دیں اس بدنما جمہوریت نما نظام کو ہی بدل دیں، کسی مجرم کو سزا ہی دے دیں بے گناہ عوام کو انصاف انصاف ہی دے دیں۔ اب الیکشن کمیشن نے گیند ایک بار پھر سپریم کورٹ کی کورٹ میں پھینک دی ہے اب کیا سپریم کورٹ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن والے فیصلے کو غلط کہے گی ، آئین کی ایک پھر تشریح ہوگی یا پھر ایکشن ایکٹ کو دوبارہ تحریر کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ وہ گورکھ دھندہ ہے جسکو سلجھانے میں شاید کئی سال لگ جائیں گے اور معاشرے میں انحطاط زور پکڑے گا۔ معیشت مزید کمزور ہوگی امیر مزید لوٹیں گے غریب زندگی سے بیزار ہونگے۔ غریبوں سے پیسے لیکر 50 امیر ترین خاندانوں کو آئی پی پیز کو بجلی نہ بنانے کیلئے دیئے جائیں گے ملک کا بیڑا غرق کیا جائے گا۔ کاش سپریم کورٹ کبھی اس پر از خود نوٹس لے کہ گیس اور بجلی کے بلوں میں ٹیکس پر کیسے ٹیکس لگایا جاتا ہے اور ٹیکس آمدنی کی کونسی شکل ہے کرایہ لینے پر بھی ٹیکس اور خریدے ہوئے میٹر پر کرایہ دینے پر بھی ٹیکس اور امیروں کو بجلی نہ بنانے پر غریبوں کے گلے کاٹ کر ہر ماہ اربوں روپے کیوں دئیے جاتے ہیں ؟ کاش کبھی یہ بھی پوچھا جائے کہ اگر گندم خریدنا نہیں تھی تو سپورٹ پرائس کیوں مقرر کی ؟ اور اگر کی تو اس پر منڈی میں عملدرآمد کیوں نہیں کروایا گیا۔ کاش کبھی منصف یہ بھی دیکھ لے ابھی تک تو وہ صرف عمران خان ، پی ٹی آئی، بشری بی بی ، عدت ، 190 ملین، سیاسی جماعتیں، سیاسی ممبران وغیرہ وغیرہ ہی دیکھ رہا ہے۔ کاش کبھی بل کو دیکھے کبھی گندم کو دیکھے کبھی غریب عوام کو دیکھے۔ کاش