تحریر:شکیلہ فاطمہ
اس موضوع پر پہلی قسط میں مسلح افواج میں نظام احتساب کا جائزہ لیا گیا اگرچہ احتساب مکمل نہیں لیکن بہت زیادہ حد تک بہتر پایا گیا احتساب ناکام وہاں ہوا جہاں پارلیمنٹ اور عدلیہ نے ہونے نہ دیا ورنہ ادارے کے اندر یہ نظام عین اسلامی اصولوں کے مطابق جاری و ساری ہے اور اسکا کریڈٹ مسلح افواج کے ادارے کو جاتا ہے۔ اس قسط میں عدلیہ اور حکومت کے زعما وغیرہ کے احتساب کا جائزہ لیا جائے گا۔ پاکستان میں احتساب کا آغاز وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پروڈا ایکٹ نامی قانون جاری کرکے کیا اور کرپشن کے الزام میں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جن میں سب سے اہم سندھ کے چیف منسٹر پیر الٰہی بخش تھے جن کو کرپشن کے الزام میں 7 سال کیلئے نااہل قرار دیاگیا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے دس سالوں میں کوئی میگا سکینڈل تو نہ تھے لیکن جعلی کلیموں کے ذریعے کرپشن کی گئی لیکن مخالفین کو دبانے کا سلسلہ جاری رہا۔ جنرل ایوب خان نے ایبڈو ایکٹ کے تحت 75 سیاست دانوں کو نااہل کردیا اور 3000 سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا اور احتساب مکمل ہو گیا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ہزار سے زیادہ سرکاری ملازمین کو مختلف الزامات میں برطرف کیا تھا ان میں عمران کے والد جناب اکرام اللہ خان نیازی بھی شامل تھے جو کرپشن کے الزام میں برطرف ہوئے ۔ ان کی کابینہ کے کسی وزیر کے خلاف مالیاتی کرپشن کا کوئی بڑا الزام نہیں تھا کیونکہ اس وقت تک سیاست میں وضعداری ، حیا اور شرم موجود تھی ۔ سیاست اصلی شریف لوگوں کا کام سمجھا جاتا تھا لیکن جنرل ضیا الحق کے دور میں سیاست کے معنی بدل گئے نو دولتیوں کو پارلیمنٹ میں لایا گیا ۔ پارلیمینٹرین کو کونسلر بنایا گیا انکو ٹھیکے دئیے گئے اور شرفا کو سیاست سے آؤٹ کر کے سب نئے وارداتیوں کو سیاست دان بنایا گیا اور جو واردات نہیں کرتے تھے انکو سکھایا گیا اور انہی کی اب دوسری اور تیسری نسل تین گنا اضافے کے ساتھ کرپشن میں لتھڑ کے پارلیمنٹ اور حکومتی عہدوں سے مستفیض ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے قومی احتساب کمیشن کے نام سے ایک ادارہ بنا کے سیف الرحمان کو اسکا سربراہ بنا دیا جسکا بعد ازاں نام احتساب الرحمان پڑ گیا اسکا کام صرف پیپلز پارٹی کو کچلنے اور شریف اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے کام کرنا تھا تمام مقدمات پیپلز پارٹی اور دیگر مخالفین کے خلاف بنائے گئے زرداری صاحب کو 11 سال جیل میں رکھا لیکن اربوں خرچ کرنے کے باوجود کسی سے ایک پائی بھی وصول نہ ہوئی اور نہ کوئی مقدمہ ثابت ہو سکا ۔ اس کے بعد پرویز مشرف نے اس ادارے کا نام تبدیل کیا اور قومی احتساب کمیشن کی بجائے قومی احتساب بیورو بنایا۔ ابھی جنرل امجد نے کام شروع ہی کیا تھا کہ 2002ء کے الیکشن ہو گئے اور پھر بیورو بھی کمیشن کی ڈگر پر چل نکلا۔ ضیا الحق کے بعد کرپشن بڑوں کے حصے میں آئی اور چھوٹوں کو بس جتنا ٹھیکوں سے مل جائے اس پر گزارا کریں اور یوں پاکستان کرپشن کی دلدل میں دھنس گیا اور احتساب کے نام پر سیاست بلکہ راج نیتی کا کھیل کھیلا جانے لگا۔ اہل اقتدار نے ہاتھ ملا لیا اور مل کر ملک کو لوٹنے کے فلسفے پر عمل شروع کر دیا اب ملک غربت کی چکی میں پس رہا ہے اور اہل اقتدار کے اثاثے گنتی سے باہر ہیں اور کوئی ایک مقدمہ نہ ثابت کیا گیا نہ کوئی وصولی ہوئی نہ کسی کو سزا ملی ۔اب عدلیہ کا جائزہ لے لیں ۔ پاکستان کے پہلے آٹھ سال ججوں نے ایک قاضی کا کردار نبھانے میں پوری جان لڑا دی لیکن عدلیہ کو کمزور کرنے کی پالیسی جاری رہی اور پھر مولوی تمیز الدین کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس نے ایک نظریہ ضرورت ایجاد کر کے انصاف کے منہ پر کالک مل دی لیکن اس کے بعد کبھی عدلیہ مکمل قاضی کی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہی۔ ایوب خان کو جائز قرار دیا اس کی تابعداری کی پھر جنرل ضیا الحق کی تابعداری شروع کر دی ان تابعدار ججوں میں مولوی مشتاق، شیخ انوارالحق ، نسیم حسن شاہ، رفیق تارڑ، ثاقب نثار اور بندیال جیسے نام شامل ہیں۔ انہوں نے عدلیہ کو مذاق بنایا انصاف کے ساتھ کھلواڑ کیا لیکن انکا کبھی احتساب نہ ہوا ان کے علاوہ بھی کئی نام تھے جو دوہری شہریت اور آف شور کمپنیوں اور غیر ملکی اثاثوں کی ملکیت رکھتے تھے لیکن وہ احتساب کی زد میں کبھی نہ آئے کیونکہ ان سے احتساب ڈرتا تھا وہ مقتدرہ اور سیاست دانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں لگ گئے اور آئین، قانون اور انصاف سب بھولے بسرے نغمے بن کے رہ گئے۔ کسی جج کی بیٹی دو دو نوجوانوں کو مقبوضہ گاڑی سے کچل دے سالوں اسکا بال بیکا کوئی نہیں کر سکتا اسکا جج باپ اس پر آنچ نہیں آنے دیتا مرنے والے توبس کیڑے مکوڑے تھے، جج کا احتساب ہونے کی بجائے ترقی مل جاتی ہے۔ پلاٹوں پر انصاف ناچتا ہے آئین نئے سرے سے لکھا جاتا ہے قانون نئے سارے سے لکھا جاتا ہے۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بینچ کی تشکیل دیکھ کر لوگ کہتے اس کیس کا یہ فیصلہ ہوگا۔ قوم کو کرپٹ بنانے میں سب سے بڑا کردار عدلیہ کا ہوتا ہے۔ جس دن سپریم کورٹ فیصلہ سناتی کہ سزائے موت پانے والا بندہ بیگناہ ہے اور اسکو باعزت بری کیاجاتا ہے اس دن عدالت کو بتایا جاتا ہے کہ مائی لارڈ وہ تو کئی سال پہلے جیل میں گل سڑ کے شرمندگی سے مرچکا ہے کیونکہ عدالت حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کیس روزانہ کی بنیاد پر سن رہی تھی اس لئے اسکا مرنا مقدر تھا۔ سرکاری ملازم کی اپیل دس پندرہ سال تک نہیں سنی جاتی لیکن ایک پولیس والے کے تبادلے کے کیس میں ایک دوسرے آئینی ادارے کو فکس کردیا جاتا ہے لیکن کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ بچوں کی شادیوں میں سیاستدانوں، اہل اقتدار اور بڑے افسران کو بلایا جاتا ہے اور کروڑوں اربوں کے تحائف اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ بیوائیں مر جاتی ہیں لیکن مقدے کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ ساری قوم مر جائے سوموٹو نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی کسی جج کے بارے بات کرے تو فوری سوموٹو اور توہین عدالت کا نوٹس جاری ہو جاتا ہے۔ جب لندن پر جرمن طیارے کارپٹ بمباری کررہے تھے تو ساری برطانوی کابینہ گھبرائی ہوئی تھی تو چرچل نے انہیں کہا جاو لوگوں سے پتہ کرو کہ کیا انکو عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے اور جب کابینہ ممبران نے واپس آکے برطانوی وزیراعظم چرچل کو بتایا کہ لوگ کہتے ہیں برطانوی جج اب بھی انصاف دے رہے ہیں تو چرچل نے کہا ” کہ جس ملک کے جج جب تک انصاف دیتے رہیں اور لوگوں کا اعتماد قائم رہے اس وقت تک وہ قوم تباہ نہیں ہو سکتی ” اور برطانیہ وہ جنگ گیا۔ ہم بحیثیت مجموعی نظام انصاف کے قتل پر تباہ ہو چکے ہیں۔ پچاس سال کے بعد مانا گیا بھٹو کو ججوں نے عدالت کا سہارا لیکر قتل کیا لیکن ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ ایسے پتہ نہیں کتنے قتل ہوئے ہونگے۔ پاکستان میں اگر عدلیہ کا مکمل احتساب نہ ہوا اور نظام عدل اسی طرح چلانے کی کوشش کی گئی تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ اس لئے جج ٹھیک کردو باقی سب کو جج ٹھیک کردیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔