کھوج بلاگ

مسلح افواج، عدلیہ ،پارلیمنٹ اور حکومت میں احتساب حقیقت یا محض سیاست؟

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اورساتھیوں کی گرفتاری اورکورٹ مارشل کےساتھ ایک بارپھراحتساب کی گونج۔احتساب کمیشن توکبھی قومی احتساب بیورو، کہانی کیا ہے۔

لاہور(تحریر،شکیلہ فاطمہ،حصہ اول) احتساب اسلامی ریاست کا اہم ستون ہے ، نبی اکرم اور خلفاء راشدین کے دور میں احتساب پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ ہر شعبہ خواہ اسکا تعلق انصاف سے ہو، فوج سے ہو، یا کوئی اور معاشرتی شعبہ ہو، احتساب اور انصاف کو سختی سے نافذ کیا گیا۔ رسول اکرم اور خلفاء راشدین نے احتساب و انصاف کی مسلمانوں کیلئے مثالیں قائم کیں تاکہ امت مسلمہ احتساب کے عمل پر کاربند رہ کر مسلمان ریاستوں کو اسلامی فلاحی ریاست بنا سکیں اور انصاف و ایمانداری کا جامع نظام قائم کر سکیں۔ اگر کسی قاضی کے خلاف شکایت آئی تو اسکا احتساب کیا گیا، کسی علاقے کے گورنر نے آمدن سے بڑھ کر معیار زندگی اپنایا تو اسے ہٹا دیا گیا ، عین حالت جنگ میں فوج کے کمانڈر کو ہٹا دیا گیا۔

اسلام کے علاوہ باقی ترقی یافتہ اور مہذب دنیا میں بھی احتساب کا کڑا نظام ہے جتنا کوئی بڑے عہدے پر ہوتا ہے اتنی ہی اسکو زیادہ سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں تین اہم ادارے ہیں جو ملک و ملت کے مقدر کا تعین کرتے ہیں۔ ان میں مسلح افواج، سیاست دان یعنی ممبران پارلیمنٹ اور حکومتی زعماء اور اعلی عدلیہ شامل ہیں۔ اگر ان اداروں میں بیٹھے لوگوں کا احتساب نہ ہو تو پھر ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ان تینوں اداروں میں احتساب کے نظام کی صورتحال کیا ہے اور ماضی میں کیا رہی ہے۔ اس قسط میں مسلح افواج کے نظام احتساب کا احاطہ کروں گی ، دیگر دو اداروں کا تذکرہ اگلی قسط میں کیا جائے گا۔

مسلح افواج پاکستان میں احتساب کا ایک کڑا نظام قائم ہے اور یہ کبھی معطل نہیں ہوتا۔ حال ہی میں تاریخ میں پہلی دفعہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور ان کے تین ریٹائرڈ ساتھیوں بریگیڈیئر غفار، بریگیڈیئر نعیم اور کرنل عاصم کو حراست میں لیکر ان کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل کی کاروائی شروع کر دی گئی ہے جسکی تصدیق فوج کے محکمہ تعلقات عامہ نے کر دی ہے۔ اس سے پہلے 2023 میں میجر ریٹائرڈ عادل راجہ اور کیپٹن ریٹائرڈ حیدر رضاء مہدی کو باالترتیب 14 اور 12 سال کی سخت سزا اور تمام اثاثے ضبط کرنے کی سزا دی گئی۔ لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین کو 1952 میں بغاوت پر اکسانے کے جرم پر سزا دی گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو جاسوسی کے الزام میں 14 سال کی سزا دی گئی اور بریگیڈیئر علی خان کو 12 سال کی سزا دی گئی ان پر کالعدم تنظیم حزب التحریر سے روابط اور دیگر الزامات تھے۔

لیفٹیننٹ کرنل (ر) شاہد بشیر کو بھی حزب التحریر سے روابط اور شمسی ایئر بیس کے راز افشا کرنے کا الزام تھا انکو سروس سے برخاستگی تین سال کی سزا سنائی گئی۔ 1995 میں، میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو بغاوت کی کوشش کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں سات سال قید کی سزا سنائی گئی اور بریگیڈیئر مستنصر باللہ کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ان دونوں افسران سمیت کل 38 فوجی افسران کو سزائیں دی گئیں۔ 1980 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے پر تقریبا 90 افسران و جوانوں کا کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں فوج سے برطرف کر دیا گیا۔ ان کے علاوہ این ایل سی کے سربراہ میجر جنرل اور ایک دوسرے افسران کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا اور خردبرد کا حساب لیا گیا۔

میجر جنرل عبیداللہ خٹک اور میجر جنرل اعجاز شاہد کا جرم ثابت ہونے پر نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ حال ہی میں سابق کور کمانڈر لاہور اور دو دیگر افسران سزا یافتہ ہو چکے ہیں ۔ جنرل ضیاءالدین بٹ کو سزا ہوئی اس کے علاوہ بحریہ کے سابق سربراہ کو نیب سے سزا ہوئی اور انکے رینک ضبط کر لئے گئے اس طرح یہ ایک لمبی لسٹ ہے اس میں صرف اہم اور بڑے افسران کے کچھ نام دیئے گئے ہیں اس کے علاوہ بیسیوں افسران اور سینکڑوں جوان ایسے ہیں جنکا کورٹ مارشل ہوا اور انکو سزائیں دی گئیں۔

اس فہرست میں جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلح افواج میں احتساب کا عمل کلی طور پر ہوا اور مکمل ہوا۔ بہت سارے ایسے مواقع ہیں جب نظریہ ضرورت کے تحت احتساب کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ جیسے آئی جے آئی والے کیس کی مثال ہے جس میں سابق جنرلز اسلم بیگ اور اسد درانی شامل تھے کو نظر انداز کیا گیا اور جب جب مارشل لاء لگایا گیا عدلیہ نے بیچ میں آکر اسکو جائز اور وقت کی ضرورت قرار دے دیا۔ بہرحال جنرل فیض حمید اور ان کے ساتھیوں کا کورٹ مارشل ان کی ذات تک محدود نہیں رہنا چاہیئے اس میں انکو بھی شامل کیا جانا چاہیئے جنکی آشیرباد انکو حاصل تھی اور جس نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا انکو بھی کٹہرے میں لایا جائے اور کڑے احتساب کا نظام رائج کر کے اس پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تاکہ ریاست ایک محفوظ اور حقیقی اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بن سکے لیکن عدلیہ اور پارلیمنٹ و حکومت میں احتساب کا عمل کیسا رہا اور کیسا ہے اسکا جائزہ اگلی دو قسطوں میں لیں گے۔ قارئین کی تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا۔(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button