
تحریر: شکیلہ فاطمہ
اس بات پر سب متفق ہیں کہ پاکستان کی معیشت انتہائی خراب اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ یہاں ہمیشہ مصنوعی طریقے اور فراڈ سے کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچا کر امیروں اور لینڈ کروزر گروپ میں شامل کیا جاتا رہا۔ کبھی رئیل اسٹیٹ کو ہتھیار بنایا گیا چند لوگوں کو نوازا گیا اور عام آدمی گھر بنانے کی سکت کھو بیٹھا۔ کبھی نام نہاد کالج ، سکول اور یونیورسٹیاں بنوائی گئیں اور عام آدمی سے تعلیم چھین لی گئی، کبھی پرائیویٹ ہسپتالوں کا جال بچھوایا گیا اور عام آدمی سے علاج معالجہ کی سہولت چھین لی گئی۔ مافیاز کو پیدا کیا گیا، شوگر مافیا، ٹیکسٹائل مافیا، آٹا مافیا، بیوروکریسی مافیا اور کسان سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ معیشت کی بہتری کے دعویٰ کر کے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنایا گیا۔ 75 سال سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور نوبت دیوالیہ پن تک پہنچ چکی ہے۔ جھوٹے اعداد و شمار اور جھوٹے دعوؤں سے معیشت کی حالت روز بروز ابتر ہوتی چلی گئی۔ یہ بات بھی باعث شرم ہے کہ وہ حکمران جس کے بچے باہر ہوں اور وہاں کاروبار کر رہے ہوں وہ دوسرے ملکوں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے کیسے راغب کر سکتا ہے۔ ؟ عجیب ستم ظریفی ہے کہ میں تو کاروبار باہر کروں اور باہر والے یہاں آ کے کریں واہ میری بیمار جمہوریت تیرے صدقے جاواں۔ اب آج نگران کابینہ قسم اٹھانے جارہی ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے ادا کریں گے یوں لگتا ہے یہ اب حلف نہیں رہا بلکہ صرف رسم سی بن کے رہ گئی ہے کیونکہ ایمانداری کا عنصر عملی طور پر مفقود ہو چکا ہے۔ سنا ہے اس نگران کابینہ میں ایسے ماہرین اور نامور لوگوں کو لایا جا رہا ہے جو سیاست میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں بلکہ اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہوں اور ملک کو ترقی کے سفر پر دوڑا دیں غریبوں کو سستی اشیا ملیں اور انکی زندگی میں کچھ راحت آئے یعنی یہ الیکشن کرانے والی کابینہ نہیں ہو گی بلکہ یہ نایاب نگینے اس ملک کی تقدیر سنوارنے کیلئے ہو نگے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمیں بھی ایسی جمہوریت کی ضرورت نہیں جس نے ملک کے عام آدمی کا دیوالیہ نکال دیا ہے لیکن اگر انہوں نے بھی معیشت کی گاڑی کو ریل گاڑی بنا کے نواب شاہ کے قریب پٹری سے اتار کر ہمیں مار دینا ہے تو پھر الیکشن کروانے والی کابینہ ہی بہتر رہے گی کیونکہ وہ لوگ جو بھی آئیں انہیں مارنے کا تجربہ تو ہے۔ انوارالحق سے لیکر سرفراز بگٹی تک سب مڈل کلاس سے آئے ہیں اور سرداروں وڈیروں سرمایہ داروں کو اس کلاس سے چڑ ہے اگرچہ کچھ لوگ چپ ہیں لیکن وہ ان کے صاحب اقتدار ہونے سے شدید کرب اور تکلیف میں ہیں ان سے عام آدمی کی بہت امیدیں ہیں ان کو سیاست سے دور ہی رہنا چاہیے اور اگر یہ معیشت تعلیم صحت کو شاندار بنا سکتے ہیں ان شعبوں سے مافیاز کا خاتمہ کر سکتے ہیں تو جمہوریت جائے بھاڑ میں انکو یہ کام کر گزرنا چاہیے ورنہ انکو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ حافظ صاحب اور قاضی صاحب اس وقت عام آدمی کی امیدوں کا محور ہیں ان سے گزارش سے کہ نگران سیٹ اپ کو عام کے ساتھ سیاست کرنے سے باز رکھا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پاکستان کی سلامتی کے خطرے سے دوچار ہو جائیں سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے بھوک ننگ افلاس کو کسی چیز سے محبت نہیں رہتی اس کے سامنے ملک قوم سلطنت جب الوطنی سب بے معنی ہو جاتے ہیں اور پھر ملک بکھر جاتے ہیں۔ ہمارے لئے باعث شرم ہے کہ تمام وسائل کے ہوتے ہوئے سیاست اور ڈکٹیٹر شپ نے مل کر ایک ڈالر کو تین سو روپے تک پہنچا دیا ہے ۔ ایک ڈالر(ایک امریکی روپیہ )پاکستان کے تین سو روپے کے برابر ہو گیا ہے۔ ایک امریکی کی اہمیت تین سو پاکستانیوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ ڈالر کی قیمت بڑھی نہیں ہے بلکہ ہمارے روپے کی قیمت کم سے کم تر ہوئی ہے ۔ کیا یہی ہے وہ ترقی جس کے دعوی ہر حکمران 75 سال میں کرتا رہا ؟ میری بہترین دعائیں نگرانوں، حافظوں اور قاضیوں کے ساتھ ہیں کیونکہ اسی میں ہماری بھلائی اور بہتری ہے کہ نگران حلف کا پاس کریں اور ہمارے ساتھ سیاست سے گریز کریں کیونکہ پاکستان اب مزید ایسی سیاست، ایسے نظام انصاف ، تعلیم و صحت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔