کھوج بلاگ

پاک فوج کے سپریم کمانڈر کا اعتراف جرم

تحریر: شکیلہ فاطمہ
صدر مملکت جو سربراہ مملکت کے علاوہ مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں اور پارلیمنٹ کا تیسرا جزو جو آئین پاکستان کا محافظ ہوتا ہے، نے چند دن پہلے اپنے ذاتی ٹویٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ کیا کہ وہ اللہ پاک کو قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے دو بلوں جو انہیں بالترتیب 2 اگست اور 8 اگست کو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد آئین کے آرٹیکل 75 تحت بھیجے گئے۔ یہ بل 18 اگست کو گزٹ آف پاکستان میں شائع لر دئیے گئے اور یہ قانون بن گئے جس کے دو دن بعد صدر مملکت عارف علوی صاحب اللہ کی قسم کھا کر لکھا کہ انہوں نے ان دونوں بلوں پر دستخط نہیں کئے اور اس کے بعد میڈیا پر ایک کہرام مچ گیا جس کی زبان پر جو آرہا تھا وہ کہے جا رہا تھا، عجیب عجیب وکلا سے تبصرے اور تجزئے کروائے جا رہے تھے اور چینلوں کے ماہرین اپنی آرا سے پاکستانی عوام کو مستفیض فرما رہے تھے۔ جعلی دستخط کس نے کئے ؟ جعلی دستخط صدر کے عملے نے کئے جسکا بظاہر صدر نے اشارہ بھی دیا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا قانون غلط بن گیا ، موجودہ حکومت اسکو ختم کر دے کوئی کہہ رہا تھا انکوائری کروائی جائے صدر کا حکم کیوں نہیں مانا گیا ۔ لیکن اس تمام کاروائی اور بحث و تمحیص میں ماسوائے دو تین سینئر وکلا کے کسی کو آئین کا مکمل ادراک ہی نہیں تھا۔ آرٹیکل 75 کے مطابق جب قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد کوئی بل صدر مملکت کو بھجا جاتا ہے تو آئین صدر کو حکم دیتا ہے کہ ” صدر مملکت دس دن کے اندر اس بل کی منظوری دے یا پھر اپنے تحفظات کے ساتھ بل پارلیمنٹ کو واپس بھیج دے کہ پورے بل یا مخصوص شقوں پر دوبارہ غور کیا جائے”میں نے یہاں حکم کیوں استعمال کیا ہے کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ ۔” The President shall , within ten day, ..” جی تو shall کا مطلب ہے حکم یعنی آئین صدر کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ دس دن لے اندر ان دو کاموں میں سے ایک کرے گا۔ صدر کے پاس تیسرا کوئی آپشن ہی موجود نہیں ہے اب اگر صدر خدا کو گواہ بنا کے کہے کہ اس نے دستخط نہیں کئے تو اسکا مطلب ہے کہ عارف علوی صاحب نے آئین کی خلاف ورزی کے جرم لا اعتراف کر لیا ہے اور اعتراف جرم کے بعد آرٹیکل 6 کی کاروائی کا آغاز صدر کے خلاف فوری شروع ہونا چاہیئے۔ اس کے علاوہ اس پر کسی قسم کی بحث کا کوئی جواز سرے سے بنتا ہی نہیں ہے۔ آئین کی خلاف ورزی جب فوج کرتی ہے تو ہم شد و مد سے آرٹیکل 6 کی کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں پھر سیٹھ وقار والی عدالت ایسی سزا سناتی ہے جسکا کسی قانون میں ذکر نہیں فیصلہ قانون کی بجائے نفرت لی بنیاد پر دیا جاتا ہے جبکہ قاضیان مملکت 12 اکتوبر کی بجائے 2007 کی ایمرجنسی پر غداری کا مقدمہ چلاتے ہیں کیونکہ 12 اکتوبر 1999 پر چلاتے تو اس وقت قاضء اعلی بھی پھانسی کی سزا کے حصہ دار بنتے اور سینکڑوں دیگر بھی جنہوں نے کرسی کے مزے لوٹے۔ اب پاکستان کا بطور ریاست سربراہ اعتراف جرم اللہ کو گواہ بنا کے کر رہا ہے کہ اس نے دستخط نہ کر کے آئین کے حکم کو نہیں مانا تو اسکو سزا دینے کی بجائے کوئی کہہ رہا قانون نہیں بنا کوئی کہہ رہا ہے جعلی دستخط کئے۔ ارے بھائی قانون جائے بھاڑ میں ، ایک بندہ جو دنیا میں ریاست پاکستان کو بطور سربراہ متعارف کرواتا ہے اور اس کے سب سے معتبر محل میں بیٹھا ہے وہ خود اعتراف جرم کر رہا ہے تو آپ آرٹیکل 6 کی کاروائی سے گریزاں کیوں ہیں ؟ کیونکہ سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ انکی گردنوں میں پھانسیوں کے پھندے ڈالے جائیں وہ چاہتے ہیں کہ انکا پسندیدہ نعرہ ڈکٹیٹر شپ مردہ باد چلتا رہے اور ہم موج کرتے رہیں جب یہ تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں تو پھر کسی فوجی کا دل بھی مچل جاتا ہے وہ انکو گھر بھیج کے دس بارہ سال مزے کرتا ہے اور پھر انکو دے دیتا ہے یہ اپنی باری پر وہی پرانا نعرہ لگاتے رہتے ہیں۔ جناب واضح ائین شکنی ہوئی ہے اور بندہ اعتراف جرم کر رہا ہے اب عوام لو بیوقوف مت بناو نتائج سے بے پرواہ ہوکے آئین کا تحفظ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے اب تک اس اعتراف جرم پر کوئی نوٹس نہیں لیا، وزیراعظم چپ ہیں، مسلح افواج چپ ہیں، سیاسی جماعتیں چپ ہیں، آخر کیوں ؟ بس مجھے صرف اس کیوں کا جواب چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button