کھوج بلاگ

”کچے کے ڈاکو ”

تحریر: شکیلہ فاطمہ
دریائے سندھ جب تونسہ بیراج کو کراس کرتا ہے تو اسکا پہاڑوں اور تھل کا سفر اختتام پذیر ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد یہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے درمیان میں سے گزرتا ہے اس کے مغرب میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور جبکہ مشرق میں کوٹ ادو مظفر گڑھ اور رحیم یار خان کے اضلاع واقع ہیں اس کے بعد گڈو بیراج آتا ہے اور یہ دریا صوبہ سندھ کے سکھر ڈویژن میں داخل ہوجاتا ہے۔ تونسہ کے آگے دریا کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے اور کوٹ مٹھن کے قریب یہ پنجاب کے تمام دریا اپنے اندر ضم کر لیتا ہے اور اسکا بیلٹ کئی کلومیٹر میں پھیل جاتا ہے۔ یہاں پر بارشوں کی وجہ سے سیلاب آتا ہے اور پانی دور دراز علاقوں تک پھیل جاتا ہے جب سیلاب ختم ہوتا ہے تو لوگ واپس آکے دوبارہ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ جہاں تک دریا کا سیلابی پانی جاتا ہے وہاں نہری نظام نہیں ہے اور انفراسٹرکچر بھی تعمیر نہیں کیا گیا اس لئے آمدورفت کے ذرائع درست حالت میں نہیں ہیں ۔ رحیم یار خان سے آگے گھوٹکی، سکھر، کشمور وہ علاقے ہیں جہاں دریا کا پھیلاؤ کئی کلومیٹر میں ہے اور وہاں جنگلات ویرانہ اور حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے ان علاقوں میں ایک الگ ریاست قائم ہے جسکا اپنا نظام ظلم و زیادتی قائم و دائم ہے ۔ بہرحال اس تمام علاقے کو کچے کا علاقہ کہتے ہیںکیونکہ یہاں سیلابی پانی آتا ہے، نہری نظام نہیں ہے اور نہ ہی پکی سڑکیں ہیں حکومت نے ان علاقوں کو مکمل نظرانداز کر رکھا ہے لیکن ان کو نظر انداز کرنے کی بھی ایک خاص وجہ ہے۔ تونسہ سے لیکر ٹھٹھہ اور سجاول، ماسوائے وہ علاقہ جو دریا حیدرآباد سے گزرتا ہے سب بڑے جاگیرداروں کی ملکیت ہے۔ جیسے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں کھر، لغاری، کھوسے، مزاری، دریشک، قیصرانی، قریشی جتوئی اور لونڈ وغیرہ اسی طرح رحیم یار خان میں رئیس، لغاری، سید جبکہ گھوٹکی ‘ کشمور کندھ کوٹ ، جیکب آباد میں مہر ، ماچھی، ملاح، جتوئی، سید، بھٹو، زرداری اور کچھ دیگر جاگیردار ہیں جو کسی نہ کسی طرح صوبائی اور وفاقی حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور شروع سے انہوں نے ان لوگوں کو پال رکھا تھا اور یہ انکو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے اور انکو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے جرائم پیشہ افراد یہاں کچے کے مختلف جاگیرداروں کے گینگز میں شامل ہونے لگے لیکن ان گینگز کے نام کسی چھوٹی قوم کے بدمعاش کے نام پر رکھا جاتا تاکہ اصل مالک کا پتہ نہ چل سکے کہ الطاف ملاح کو کون پالتا اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس لئے ان کے نام ماچھی گینگ، الطاف ملاح گینگ، چھوٹو گینگ، کبڑا گینگ، جٹوگینگ وغیرہ وغیرہ ہوتے ہیں۔ شروع شروع میں ان کے مالکان جنہیں مقامی زبان میں رسہ گیر کہا جاتا تھا اور یہ کارندے چور کہلاتے تھے۔ چوروں کا کام کچے کے علاقے سے باہر اور خاص طور پر متعلقہ رسہ گیر کے مخالف جاگیرداروں کے مزارعین کے مویشی چوری کرکے لانا اور ان کے گھروں میں نقب لگا کر گھر سے چوری کرنا ہوتا تھا جس سے متعلقہ مالک رسہ گیر ان چوروں کے کھانے پینے ، رہنے سہنے اور دیگر ضروریات پوری کرتا تھا اور جو مال بچ جاتا وہ اپنے تصرف میں لاتا لیکن وقت کے ساتھ تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں اور گینگز بڑے ہونے لگے اور انکی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ اس لئے اب مویشی چوری اور گھروں میں نقب زنی سے جاگیرداروں کے بچوں اور ان کارندوں کا عیاشانہ گزارہ مشکل ہو گیا۔ عصر کے بعد رحیم یار خان سے گڈو اور بھونگ جانے والی سڑکیں بند ہو جاتی تھیں اسی طرح ظاہر پیر، چاچڑاں اور مغربی کنارے پر کوٹ مٹھن سے مشرق اور روجھان سے کشمور تک اور پھر گھوٹکی، کشمور جیکب آباد وغیرہ کے کچے کے علاقے ” نوگوایریاز” بن جاتے اور پولیس کا وہاں جانا بھی ممنوع تھا جس کیوجہ وہ متعلقہ رسہ گیر و جاگیردار تھے جو حکومت کا بھی حصہ ہوتے تھے اور علاقے میں بھی ریاست کے اندر ریاستوں کا جال پھیلایا ہوا تھا۔ جب وقت تبدیل ہوا ، لوگوں کے رہن سہن میں جدت آئی ، آسائشوں کی بھرمار ہونے لگی ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوا فون کمپیوٹر اور دیگر آلات نے زندگی بدل دی تو رسہ گیر ڈان اور چور ڈاکو بن گئے۔ اب انکی ضروریات بڑھ چکی تھیں اس لئے جرائم کے نت نئے طریقے دریافت کئے گئے۔ ڈاکوؤں نے جدید اسلحہ کے ساتھ لیپ ٹاپ اور آئی فون بھی لینا شروع کر دیئے اب ان گینگز میں سائبر کرائم کے ماہرین بھی شامل ہو چکے تھے ۔ اب ہنی ٹریپ اور اغوا برائے تاوان کو باقاعدہ دھندے کا حصہ بنایا گیا اور اس میں مزید جدت لانے کیلئے ٹیکنالوجی کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ مختلف سائبر کرائم کے ذریعے لوگوں کے بینکوں سے اکاؤنٹ خالی کئے گئے، لوگوں کو لڑکی بن کے بلا کے یرغمال بنا لیا گیا اور تاوان کے عوض رہا کیا گیا کچھ کو قتل کر دیا گیا۔ عام لوگوں کے علاوہ تاجروں اور کاروباری افراد کو اغوا کیا گیا لیکن تعجب کی بات ہے آج تک کوئی لغاری، کھوسہ، لونڈ’ قیصرانی، کھر، قریشی، سید، دریشک، مزاری، مہر ، جتوئی، رئیس وغیرہ میں سے کوئی بھی اغوا نہیں ہوا۔ اس سے مرض کی تشخیص مشکل نہیں بس علاج مشکل بنادیا گیاکیونکہ وہی صوبے اور وفاق میں حکومت کرتے ہیں اور پھر جب پولیس نے تھوڑی بہت کارروائی ڈالنے کی کوشش کی تو پولیس والوں کو اغوا کیا جانے لگا جب انہوں نے چھڑوانے کی کوشش کی تو انکو شہید کر دیا گیا۔ ابھی چند سال پہلے ڈیرہ غازی خان کے کچے کے علاقے میں ” چھوٹو گینگ” بڑا مشہور ہوا تھا اور اس گینگ نے انڈس ہائی وے پر سفر ناممکن بنادیا تب اس گینگ کو فوج اور رینجرز کی مدد سے پکڑا اور ختم کیا گیا لیکن پچھلے دو تین سالوں سے کچے کے ڈاکوؤں نے سب کو مات دے دی ہے اور بے شمار لوگوں کو اغوا کرکے اربوں روپے تاوان لیا گیا ‘ بے شمار لوگوں کو ناحق قتل کردیا گیا درجنوں پولیس والوں کو شہید بھی کر دیا گیا۔ صادق آباد ، احمد پور لماں ماچھکہ اور پنجاب سندھ سرحد پرایم 5سے پٹرول پمپ لوٹے گئے اور ملازمین کو قتل کردیاگیا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایم-5 موٹروے پر گاڑیاں روک کر لوٹ مار شروع ہوگئی جس سے ملتان تا سکھر موٹروے بھی انڈس ہائی وے کی طرح غیر محفوظ ہو گیا۔ کل ماچھکہ ضلع رحیم یار خان کے علاقے میں ان ڈاکوؤں نے پولیس کی دو گاڑیوں کو راکٹوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زیادہ پولیس اہلکار موقع پر شہید ہوگئے اور اتنے ہی زخمی ہو گئے جن میں کچھ شدید زخمی ہیں اور زندگی اور موت کے درمیان لٹکے ہوئے ہیں لیکن سالوں سے جاری یہ ظلم و ستم یہ ریاست کے اندر ریاست کا نظام ہمارے حکمرانوں کا منہ چڑھا رہا ہے جو نہ عوام کو روٹی کپڑا دے سکتے ہیں اور نہ ہی جان اور مال کا تحفظ دے سکتے ہیں ، یہ سب کروا کے بس بیان بازی کرتے ہیں کہ ہمیں بہت افسوس ہے ان ڈاکوؤں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا اور لواحقین کے غم میں شریک ہیں۔ ان ڈاکوؤں سے نمٹنے کیلئے حکمرانوں کو اپنے آپ سے نمٹنا ہو گا ورنہ یہ بیان بازی تو کئی سالوں سے جاری ہے لیکن اب تک ان ڈاکوؤں کی ریاستوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ عجیب داستان ہے کہ پولیس کی دو گاڑیوں کو اڑا دیا گیا درجن بھر پولیس اہلکار شہید ہوگئے لیکن سپریم کورٹ نے ” سوموٹو ” نہیں لیا کیا اس سے زیادہ عوامی دلچسپی کا معاملہ یا مفاد عامہ کا مسئلہ کیا ہو سکتا ہے کہ ملک عملی طور پر شمال اور جنوب میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے عصر کے بعد جان ہتھیلی پر رکھ کے کراچی سے پنجاب ،خیبرپختونخواہ اور ادھر سے کراچی کا سفر کیا جاسکتا ہے۔ کیا اس سے ملکی معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اسکو کاری ضرب نہیں لگ رہی کیا ایسے واقعات کی موجودگی میں کوئی پاگل دنیا میں ہے جو ڈالر لیکر پاکستان آئے اور سرمایہ کاری کرے گا۔ ابھی تک سوموٹو کیوں نہیں لیا گیا اور ائیر سٹرائیک کے ذریعے انکا خاتمہ کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا یہ تونسہ سے سیہون شریف تک دریائے سندھ کے دونوں اطراف کی ریاست خوارج سے کم خطرناک ہے ؟ کئی سالوں سے یہ قضیہ حل کیوں نہیں کیا گیا۔ پکے کے پڑھے لکھے ڈاکو روزی چھین رہے ہیں تو کچے کے ڈاکو جان بھی لے لیتے ہیں۔ اے وارثان مملکت خداداد بتاؤ اسکا علاج کیا ہے ، کیا امیر شہر اور ڈاکووں نے ہاتھ ملا لیا ہے آخر انکے خلاف ایکشن لینے اور ملک و قوم کو بچانے میں کون سا امر مانع ہے ؟ کچھ تو جواب دو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button