تحریر ‘ شکیلہ فاطمہ
اس وقت پاکستان میں گندم کے کاشتکار ایک مالی بحران سے گزر رہے ہیں وہ کسان جس نے پاکستان کی پچیس کروڑ آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ چھ ماہ تک دن رات محنت کی، بلیک میں ڈبل سے بھی زیادہ قیمت پر یوریا، ڈی اے پی اور دیگر کھادیں خریدی اپنے مال مویشی بیچ کر کیڑے مار ادویات سپرے خریدی اور بد قسمتی سے وہ بھی اسے جعلی دی گئیں۔ میرا اپنا تعلق اسی کاشتکار قبیل سے ہے ہم نے جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کا سپرے خریدا اور تجربے کے طور پر صرف ایک ایکڑ پر کیا تاکہ اس کا نتیجہ معلوم ہو سکے لیکن بے ایمانی اور قانون کے عدم وجود کا یہ حال کہ جڑی بوٹیوں کے ساتھ پچاس فیصد گندم بھی تلف ہو گئی۔ مہنگا ڈیزل خرید کر اور بجلی کے ہوش اڑا دینے والے بل ادا کر کے آبپاشی کی کیونکہ نہری نظام تو اب آخری سانسیں لے رہا ہے۔ کاشتکار نے پاکستان کو گندم کی درآمد سے بچانے اور زرمبادلہ کو محفوظ بنانے کے علاوہ اس امید پر کہ گندم بک جائے گی تو وہ بھی اپنے بچوں کیلئے نئے سال کی کتابیں وردی اور کپڑے خرید لے گا لیکن اس کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب پہلے تو گندم کی سپورٹ پرائس ہی جاری نہ کی گئی اور جب گندم کی کٹائی شروع ہوئی تو پچھلے سال والا ریٹ نوٹیفائی کر دیا گیا لیکن اس پر مزید ظلم یہ کہ حکومت نے خریداری ہی شروع نہ کی اور اب تک جبکہ آدھی سے زیادہ فصل برداشت کی جا چکی ہے سرکاری خریداری مراکز بند ہیں کل ہی جب کچھ کسان ٹرالیوں میں گندم کی بوریاں لیکر سرکاری گودام پہنچے تو وہاں کا عملہ سنٹر کو تالے مار کر بھاگ گیا۔ پورے پنجاب میں آج بھی تین ہزار سے بتیس سو میں غریب کسان گندم بیچنے پر مجبور ہے اور عمال حکومت محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ کہنے کو صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہیں لیکن کاشتکار کا استحصال کرنے کی شب کو کھلی چھٹی ہے۔ ملاوٹ نہیں روکی جا سکی، بلیک مارکیٹنگ نہیں روکی جا سکی، ڈیزل بلیک نہیں روکا جا سکا بجلی اوور بلنگ حکومت کی اپنی کمپنیاں کر رہی ہیں۔ پیاز، بھنڈی، آلو، کیلا ، دہی، تیل گھی حتی کہ کسی ایک چیز پر بھی حکومتی کنٹرول نہیں ہے اور حکومت کسی بھی آئٹم کو اسکی مقررہ قیمت پر فروخت کو یقینی بنانے میں ناکام ہے اس تناظر میں کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں صوبائی اور وفاقی دو دو حکومتیں ہیں۔ اگر ناگوار خاطر نہ لگے تو عام آدمی کیلئے تو حکوتیں ہی مافیاز بن چکی ہیں اور نیچے تمام ادارے، تاجر، مڈل مین ان کے پٹھے ہیں جو مخلوق پاکستان کو بحرانوں کی دلدل سے نکلنے ہی نہیں دیتے۔ پاکستان میں اس وقت صرف گندم واحد فوڈ آئٹم ہے جسکی حکومت سپورٹ پرائس مقرر کر کے اسکو خریدتی ہے جب فصل کم ہو تو کسانوں کے گھروں میں چھاپے مار کر ان کے اپنے کھانے کیلئے رکھی ہوئی گندم بھی اٹھوا لیتے ہیں۔ لیکن اب بہانہ ہے کہ نگران حکومت نے فروری میں گندم امپورٹ کر لی تھی اس لئے حکومت گندم خریدنے سے قاصر ہے ۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو کسانوں کو ستمبر میں ہی بتا دینا تھا کہ گندم کاشت مت کرنا ہم نے فروری میں گندم باہر سے خرید لینی ہے۔ اور یہ نگران کون ہیں جو موجودہ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اگر انہوں نے کوئی ایسا جرم کیا ہے تو انکو سزا دینے کی بجائے انعامات، نوازشات اور وزارتوں سے کیوں مستفید کیا گیا ہے۔ وہ کون سا نگران تھا جو اس حکومت سے باہر ہے۔ جسکو انعام نہیں دیا گیا۔ ایک طرف انکو مجرم کہا جارہا ہے لیکن ان کے جرم کی سزا گندم کے کاشتکار کو دی جارہی ہے ؟ یہ لایعنی چورن اس ملک میں ہی بیچا جاتا ہے اور شاید بکتا ہی رہے گا۔ جب پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں سبز انقلاب کا آغاز کیا گیا تو ہم غذائی اجناس میں خود کفیل تھے۔ یہ انگریز کی عطا تھی کہ اس نے ہمارے ملک میں دنیا سب سے بڑا اور بہترین نہری نظام بنایا۔ پھر تقسیم کے بعد ورلڈ بنک کے تعاون سے اس نہری نظام میں جدت لا کر اور ان دریاوں کے علاقوں کو لنک کینال کے ذریعے پانی پہنچایا گیا جو بھارت کے حصے میں چلے گئے اگرچہ اس تقسیم پر بحث ہو سکتی لیکن ہم نے سبز انقلاب کا آغاز کر کے پاکستان کو غذائی اجناس میں خودکفیل بنا دیا۔ پھر ضیا الحق کا دور آیا اور سبز انقلاب اور زرعی معیشت جہادی ڈالروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تاجر ، درآمد کنندگان، مل مالکان کا عروج شروع ہوا اور زراعت کی تباہی شروع ہو گئی۔ لیکن بہت جلد اس کے مضمرات سامنے آنے لگے وہ ملک جو دنیا کی بہترین کپاس پیدا کرتا تھا اور جس کپاس پر پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک مضبوط انڈسٹری مانی جاتی تھی اور ایکسپورٹ میں سب سے بڑا کردار ادا کرتی تھی ، کپاس کی فصل کو تباہ کیا گیا، کاٹن زون کو شوگر زون بنا دیا گیا اور اس طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال شروع ہو گیا۔ کچھ بڑے مل مالکان تو مصر اور دیگر ملکوں سے کپاس منگوا کر کام چلاتے رہے لیکن متعدد ملیں بند ہو گئیں اربوں کے قرضے ڈوب گئے مل مالکان دیوالیہ ہو گئے اور یہ سب کپاس کے کاشتکار کو تباہ کرنے کا نتیجہ تھا۔ وہ دور اب تک جاری ہے۔ پنجاب میں نہری نظام کے ساتھ باروں کو آباد کیا گیا کالونی ایریاز انتہائی زرخیز ثابت ہوئے لیکن جب مملکت خداداد ہمارے ان حکمرانوں کے ہاتھ آئی تو بغیر ویژن کے حکومتیں چلانے والوں نے زراعت کو تباہ کر دیا اور پاکستان باہر سے کیڑوں والی گندم منگوا کر اپنے لوگوں کو زہریلا اور گندہ آٹا کھلانے پر مجبور ہو گیا اور پھر آئی ایم ایف، ورلڈ بنگ اور دیگر مالیاتی اداروں نے پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسانا شروع کر دیا اور اب ہماری معیشت دیوالیہ پن کو پہنچ چکی ہے بھوک ننگ افلاس گدھ کی طرح ہمیں دیکھ رہی ہیں لیکن کسان گندم کی بوریاں لیکر ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ ایک بار باردانہ پر کسانوں کو ڈنڈوں سے مارا گیا اور یہ واردات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی جس پر میں نے لکھا کہ آج حکمرانوں نے رازق کے نائب کو بے عزت کیا ہے ڈنڈے مارے ہیں اسکا انجام بھیانک ہوگا اگلے سال ٹرکوں کے پیچھے لگے لوگوں کو آٹے کے توڑے پر ڈنڈے پڑ رہے تھے۔ اور حکمرانوں کا گالیاں پڑ رہی تھیں۔ لیکن وہ حکمران ہی کیا جو سبق سیکھے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہ ایک فطرت کا دیا گیا انمول تحفہ ہے لیکن فطرت کو بدلنے پر صرف سزا ہی مل سکتی ہے خوشحالی نہیں مل سکتی۔ بھارتی پنجاب میں گندم کے علاوہ چاول کی سپورٹ پرائس دی جاتی ہے اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آڑھتی کسان سے سپورٹ پرائس سے کم پر خریدے اور بھارتی پنجاب جو اب چار حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے جس سے چندی گڑھ، ہماچل پردیش اور ہریانہ کو الگ کر دیا گیا وہ پاکستانی پنجاب جو تقسیم کے بعد بڑا ہوا اور بہاولپور ریاست بھی اس میں ضم ہوئی سے کہیں زیادہ گندم پیدا کرتا ہے۔ بھارتی غذائی ضروریات کا پچھتر فیصد صرف بھارتی پنجاب جو اب ایک چھوٹا سا علاقہ ماجھا اور مالوا تک رہ گیا ہے پیدا کرتا ہے اور اسی طرح چاول کا بھی سب سے زیادہ پیداواری یونٹ ہے وہاں کسان کو بجلی کھاد سپرے زرعی مشینری سستے داموں دستیاب ہے اتنی سستی کہ اگر یہاں کی حکومت کو کرنا پڑے تو غش پڑ جائے۔ لیکن سوچنا ہوگا کہ ہم فطرت سے جنگ کیوں کررہے ہیں؟سبز انقلاب کے بعد ایک مختصر سا عرصہ جنرل مشرف کے دور میں آیا جب صرف مارکیٹنگ کے نظام کو تھوڑا سا درست کیا گیا زرعی ترقی کیلئے عملی قدم اٹھایا گیا اور کسان نے تھوڑے عرصے کیلئے خوشحالی اور پاکستان نے خود کفالت دیکھی۔ اس کے بعد ایک بار پھر زراعت نظر انداز ہونے لگی اور گندم امپورٹ پروگرام شروع کر دیا گیا۔ اب سے کچھ عرصہ قبل جناب جنرل عاصم منیر کے ذاتی تدبر یا کسی دوست کے مشورے نے کام کیا اور انہوں محسوس کیا کہ پاکستان میں فطری نظام سے پیار کیا جائے اور سبز آغاز نام سے زراعت اور زرعی اجناس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیلئے کارپوریٹ فارمنگ، کسانوں کو زرعی قرضہ جات دینے اور زراعت کی ترقی کیلئے ایک مربوط نظام وضع کرنے کا پروگرام بنایا گیا یہ بھی نگران دور میں ہی بنا اور نگران دور میں ہی جنرل مشرف کے بعد نہروں کی بھل صفائی اور کھالوں کی پختگی کا کام شروع کیا گیا۔ کسان کا چہرہ کھل اٹھا پاکستانیوں نے فخر سے سر بلند کرنا چاہا ہی تھا کہ الیکشن کا عذاب آگیا اور پھر سبز آغاز کو یہ پہلا شدید جھٹکا دیا گیا ہے کہ کسان کو کنگال کر دو سبز آغاز خود بخود بھسم ہو جائے گا۔ حکومت اگر مہنگائی کے حساب سے کسانوں کیلئے گندم کی سپورٹ پرائس میں اضافہ جو انکا حق ہے نہیں دے سکتی تو کم از کم سابقہ قیمت پر ہی خرید تو سکتی ہے لیکن حکومت کا خریداری سے گریز کرنا، دانستہ گندم کے کاشتکار کو بے عزت کرنا، ایک اور قحط کو دعوت دینے کے مترادف تو ہے لیکن گندم بحران پیدا کر کے ” سبز آغاز” کے خلاف بھی ایک بھیانک سازش ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ان کیلئے جنکو اللہ نے اقتدار دیا ہے۔ اور انکو ضرور سوچنا ہوگا کہ گندم کا کاشتکار آج مظاہرے کیوں کر رہا ہے آج وہ کیوں رل رہا ۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں شدید بارشوں اور ژالہ باری سے ایک چوتھائی گندم کی فصل تباہ ہوچکی ہے جس سے پیداواری تخمینے بڑی حد تک کم ہو چکے ہیں۔ اگر آج اور ابھی اس طرف توجہ دیکر کسان کی شنوائی نہ ہوئی تو پھر ہمیں ایک شدید قحط کیلئے تیار رہنا چاہیئے اور سز آغاز والوں کو اسکی راکھ سے اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنا ہوگی۔ پاکستان زندہ باد