کھوج بلاگ

یوم آزادی، 77 سال میں کیا کھویا کیا پایا؟

تحریر : شکیلہ فاطمہ
پاکستان دنیا میں پہلی اور واحد ریاست سے جو ایک نظریہ کے تحت جمہوری انداز میں معرض وجود میں آئی۔ اور وہ نظریہ ” دو قومی نظریہ ” تھا جس کے مطابق برصغیر میں دو قومیں آباد ہیں ایک وہ جو مسلمان ہیں، وحدانیت اور رسالت محمدی پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسری قوم وہ ہے جو وحدانیت اور رسالت محمدی پر یقین نہیں رکھتی اور دونوں قوموں کے رسم و رواج، رہن سہن اور کھانے پینے کے علاوہ تمام عادات مختلف ہیں اس لئے ان دونوں قوموں کا برطانوی راج کے بعد اکٹھا رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اسی نظریہ کو بنیاد بنا کر مسلمانان برصغیر نے قائداعظم اور دیگر زعماء و اکابرین کی قیادت میں ایک الگ ملک کیلئے جدوجہد کی اور آخرکار انکی یہ جدوجہد 14 اگست 1947 کو کامیاب ہوئی اور پاکستان نام جو چودھری رحمت علی نے دیا کی ریاست کا وجود دنیا کے نقشے پر آگیا۔ لیکن اگر قیام پاکستان کے وقت اس کے نقشے کو بغور دیکھا جائے تو پاکستان صرف دو حصوں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پر مشتمل نہیں تھا بلکہ کئی ٹکڑوں میں تقسیم تھا۔ 13 ریاستیں ایسی تھیں جو پاکستان میں ضم ہوئیں۔ مغربی پاکستان مختلف ٹکڑوں میں تھا۔ کئی ریاستیں اس کے اندر موجود تھیں اور کئی اس کے بیرونی کناروں پر موجود تھیں۔ اس ستتر سالہ تاریخ کو عمیق نظروں سے دیکھا جائے تو ہم نے جہاں بہت کچھ کھویا وہاں پایا بھی بہت کچھ جو عام طور پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے اور صرف کھونے کی داستان یاد ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم نے ستتر سال میں پایا کیا ہے۔
سب سے پہلے جائزہ لیتے ہیں کہ کتنی ریاستوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق کروایا گیا اور کونسا علاقہ خرید کر پاکستان کا حصہ بنایا گیا جس کے بعد موجودہ پاکستان کا نقشہ بنتا ہے۔
پہلی ریاست سوات جس کے والی مینگل عبد الودود نے اگست 1947ء میں ہی پاکستان سے الحاق کرکے پہل کی لیکن ریاست کا باقی ماندہ حصہ 1969 میں پاکستان کے مکمل کنٹرول میں آ گیا۔ جس پر مینگل جہاں زیب کی حکمرانی تھی لیا
خیرپور دوسری ریاست تھی جس کے حکمران عامر علی مراد دوم حکمران خیرپور نے 3 اکتوبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کر کے پاکستان کا حصہ بنایا جو صوبہ سندھ کے ایک وسیع علاقہ پر مشتمل تھی۔ تیسری اور سب سے بڑی ریاست بہاولپور تھی جو موجودہ بہاولپور ڈویژن پر مشتمل تھی ۔ ریاست بہاولپور
3 اکتوبر 1947ء کو پاکستان کا حصہ بنی جس کے امیر نواب آف بہاولپور، صادق محمد خان پنجم تھے۔
اس کے بعد ریاست چترال جو موجودہ اپر و لوئر چترال کے علاوہ اپر و لوئر دیر کے علاقوں پر مشتمل تھی پاکستان کا حصہ بنی۔ ریاست چترال
کے مہتار چترال مظفر الملک تھے۔ الحاق کا اعلان تو 15 اگست 1947ء کو پاکستان سے الحاق کا کر دیا تھا۔ تاہم باقاعدہ الحاق 6 اکتوبر کو کیا گیا۔
اس کے بعد ریاست ہنزہ کا نمبر آتا ہے ہنزہ جموں و کشمیر کے شمال میں ایک چھوٹی ریاست تھی جو تکنیکی طور پر کشمیر کے مہاراجا کے ماتحت تھی۔ 3 نومبر 1947ء کو میر ہنزہ نواب محمد جمال خان نے محمد علی جناح کو ایک تار بھیجا جس میں انھوں نے اپنی ریاست کے پاکستان سے الحاق کی خواہش بیان کی لیکن کشمیر پر بھارتی حملے کیوجہ سے باقاعدہ الحاق لٹک گیا اور پھر 25 ستمبر 1974ء کو مقامی مظاہروں کے بعد میر ہنزہ کی حکمرانی ختم کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے ہنزہ کو شمالی علاقہ جات میں شامل کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے تحت کر دیا جو اب گلگت بلتستان کا حصہ ہے اور شاہراہ قراقرم پر ایک جنت نظیر علاقہ ہے۔ نگر بھی اسی علاقے میں ایک چھوٹی سی ریاست تھی جس نے ابتدائی دنوں میں ہی الحاق کر لیا تھا۔ اب ہنزہ اور نگر گلگت بلتستان کے دو جنت نظیر اضلاع ہیں۔
اس کے بعد امب ریاست جسکا رسمی طور پر 31 دسمبر 1947ء کو نواب آف امب محمد فرید خان کے اعلان سے الحاق ہوا لیکن عملی الحاق 1969ء میں ہوا ۔ اور اسے شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا) میں شامل دیا گیا۔
پھر ریاست پھلرا کی باری آتی ہے جو ریاست امب سے ملحقہ تھی، پاکستان کا حصہ بنی اور اب خیبر پختونخواہ کا حصہ ہے۔
ریاست دیر جو اب لوئر دیر اور اپر دیر کے اضلاع پر مشتمل ہے کے نواب آف دیر جہان خان نے 1987ء میں پاکستان سے الحاق کیا ۔
ریاست قلات کے خان آف قلات نے 27 مارچ 1948ء کو اپنی آزاد ریاست ختم کر کے پاکستان کا حصہ بنا دیا لیکن 1955 تک وہ اس کے ساتھ دیگر تین ریاستوں کے حکمران رہے اور اس کے بعد قلات سمیت ریاست خاران، ریاست لسبیلہ اور ریاست مکران بھی 14 اکتوبر 1955ء کو مغربی پاکستان میں شامل ہو گئی۔ اس کے علاوہ ریاست جونا گڑھ اور دکن نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا لیکن چونکہ یہ ریاستیں بھارت کے اندر واقع تھیں اس لئے بھارت نے بزور طاقت قبضہ کر لیا۔ اور کشمیر پر فوجی چڑھائی کر دی اگرچہ اس وقت کے انگریز چیف آف آرمی سٹاف نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا لیکن جہاد کے ذریعے کشمیر کا ایک حصہ آزاد کروانے میں آزاد ہو گئے جو آجکل آزاد کشمیر کی شکل میں موجود سے لیکن کشمیر 1948 سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کی قسمت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
اس کے بعد گوادر ضلع کا علاقہ جو عمان کے پاس تھا اس علاقے کو 1957 میں فیروز خان نون وزیراعظم پاکستان کے دور میں عمان سے خرید کر پاکستان کا حصہ بنایا گیا جو اب سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے حوالے سے ایک نیا شہر اور گیم چینجر ہے۔ یہ وہ تمام علاقے ہیں جنہیں پاکستان میں شامل کیا یا کروایا گیا اور اب وہ پاکستان کا اہم حصہ ہیں اگر پاکستان کے نقشے پر ان علاقوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ 1947 میں آزاد ہونے والے مغربی پاکستان کا نصف حصہ بنتے ہیں۔ دو صوبے پنجاب اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس وقت پاکستان ایک باوقار ملک ہے جسکا کل رقبہ 8 لاکھ 81 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے اور آبادی 25 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جب پاکستان بنا تو انڈیا نے پاکستان کے حصے کے پیسے بھی دینے انکار کر دیا تھا اور تمام کارخانے بھارتی علاقے میں تھے۔ انڈین سیاسی لیڈروں کو زعم تھا کہ پاکستان جلد ہی ختم ہو جائے گا اور بحالت مجبوری دوبارہ بھارت میں ضم ہو جائے گا۔ اس وقت دفاتر کی یہ حالت تھی کہ فائلوں کو پیپر پنوں کی بجائے کیکر کے کانٹے لگائے جاتے تھے لیکن اب الحمدللہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی ریاست ہے۔ ترقی یافتہ انفراسٹرکچر ہے۔ گاڑیوں کے کارخانے، ٹیکسٹائل، اور چمڑے و سرجیکل آلات کے کارخانے ہیں۔ آزاد اور خودمختار ریاست ہے۔ اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے بے پناہ وسائل کا حامل ملک اپنی جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔
اب دیکھتے ہیں ہم نے ان ستتر سالوں میں کھویا کیا ہے۔ سب سے اہم چیز جو کھوئی ہے وہ لیڈروں سچائی حب الوطنی اور وطن پرستی کھوئی ہے۔ ہم نے انکا اعتبار کھویا ہے۔ ایماندار عدالتی نظام کھویا ہے اور محنتی صابر اور عوام کی خدمت کرنے والی نوکر شاہی کھوئی ہے۔ جب پاکستان بنا اسی وقت سندھ میں عبداللہ ہارون وغیرہ اور کھوڑو دست و گریبان تھے پنجاب میں دولتانہ اور ممدوٹ ایک دوسرے پر جھپٹ رہے تھے بنگالی لیڈرشپ کو کھڈے لائن لگایا گیا اور اس کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمٰن جیسے سیاست دان لیڈر بن گئے، بھارت نے اگرتلہ میں سازش تیار کی اور پاکستان کا مشرقی حصہ الگ ہو کے ایک نیا ملک بن گیا جسے عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کا نام دیا گیا اور جس کے حکمران عوامی لیگ کو بھارتی سرپرستی حاصل تھی۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو بہت استعمال کیا جسکا تذکرہ ایک الگ بلاگ میں کروں گی لیکن 5 اگست 2024 کو عوامی لیگ کی حسینہ واجد ملک چھوڑ کر بھارتی پناہ میں ہے اور اب ایک کی بجائے دو اسلامی ملک بھارت کے مغرب اور درمیان میں مشرق کی طرف موجود ہیں اور بھارت اپنے مذموم عزائم میں ناکام ہو چکا ہے۔
لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ستتر سالوں میں ہم ایک بھی منصفانہ اور دھاندلی سے پاک الیکشن نہیں کروا سکے۔ جب بھی الیکشن ہوا دھاندلی زدہ ہوا یہاں تک کہ اگر کبھی بلدیاتی الیکشن بھی کروایا گیا تو وہ بھی دھاندلی زدہ کروایا گیا اس طرح ہمارے نظام حکومت پر داغ دھبے ہیں اور کبھی صحیح معنوں میں منتخب حکومت نہیں آ سکی جسکی وجہ سے ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے ہماری معیشت کمزور ہو گئی غربت بڑھ گئی۔
اس کے علاوہ جنرل گریسی کی حکم عدولی کی رسم نے پاک فوج کو سول حکمرانی کو ماننے سے انکار کی راہ دکھائی اور سکندر مرزا ایوب خان یحیحی خان ضیاءالحق اور پرویز مشرف نے اس تسلسل کو جاری رکھا اور نااہل لوگوں کی حمایت و پرورش کر کے پاکستان پر مسلط کیا جس سے کرپشن عام ہو گئی اور ملکی وسائل کو لوٹنا اہل اقتدار اور ساتھیوں نے بطور پیشہ اختیار کر لیا۔
رہی سہی کسر جسٹس منیر نے انصاف کا قتل کر کے اور ڈکٹیٹر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے عدلیہ کے ادارے کو انصاف سے پاک کردیا پھر مرضی کے جج مرضی کے فیصلے ، انصاف ناپید ہوگیا ججز ، جرنیلوں اور سیاست دانوں کے بن گئے اور اپنے مفادات کو پروان چڑھانے لگے اب اعلی ترین عدالت بھی تقسیم سے دوچار ہے اور اب تو آئین کو معطل کرنے اور دوبارہ لکھنے جیسے کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ ان تینوں کی تربیت نے ہر محکمے اور ادارے کو تباہ و برباد کر رکھ دیا ہے۔ شاید جس مقصد اور نظریہ کے تحت پاکستان حاصل کیا گیا تھا اس پر شروع دن سے عمل نہیں ہوا۔ اب ہماری معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ہمارے مالیاتی ادارے لٹیروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور عوام کو کبھی بجلی کبھی گیس کے جھٹکے دئیے جاتے ہیں۔
اگرچہ ہم نے بہت کچھ کھویا ہے لیکن پایا بھی ہے اور انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی قیادت ایماندار ہوگی اور پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوگا۔
تمام اہل وطن کو میری طرف سے یوم آزادی مبارک ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button