کھوج بلاگ

معاشی ترقی کے لئے حقیقی راستے

تحریر: صفدر علی خاں
پاکستان کے عوام پرنازل ہونے والے عذابوں کے ذمے دار ہی 75برسوں سے سیاہ وسفید کے مالک رہے ہیں ،نئی ریاست کا نظام چلانے کے حوالے سے ابتدائی مراحل پر مشکلات ضرور درپیش آتی ہیں ،قیام پاکستان پر متحدہ ہندوستان کی غیر منصفانہ تقسیم سے بنیادی معاشی ابتری کی صورت بھی نکلی تاہم قائد اعظم محمد علی جناح نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر چلانے کے طریقے اختیار کرلئے ،یہاں پر دیکھا جائے تو پاکستان کا حقیقی المیہ تو اس وقت شروع ہوا جب حکمرانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے قیام پاکستان کے بنیادی اصولوں سے ہی انحراف کرتے ہوئے قوم کو گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا ،قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی بنیاد جن چار اصولوں 1.نظریاتی قومیت 2.اسلام 3.جمہوریت ،4۔اجتماعی عدل پر رکھی انہیں یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ،جس کے سبب گزشتہ 75برسوں سے پاکستان سیاسی ،معاشی ،مذہبی ،لسانی ،سماجی مسائل کا شکار ہے ،یہاں پرفرقہ واریت اور قومیت پرستی کی تحریکوں نے بلوچستان اور سندھ میں وفاق کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ،قائد اعظم محمد علی جناح کے 1948 میں انتقال کے بعد سے ملک پر کئی طرح کے عذاب ٹوٹے ،قومی یکجہتی کی حقیقی صورت پیدا نہ ہوسکی ،1948 میں حکومت لیاقت علی خان کو سونپی گئی۔ 1951 میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951 سے 1958 تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ 1956 میں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958 میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔ جنرل ایوب کے دور میں سیاسی افراتفری بڑھنے پر مشرقی پاکستان دور ہوتا چلا گیا۔ 1963 میں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگر مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سیعلیحدہ تو ہوئے لیکن جاتے جاتے انہوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل یحیی خان کے حوالے کر دی۔ 1971 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحیی خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971 میں سقوط ڈھاکہ ہو گیا لیکن حقیقت پسندی سے معاملات کو دیکھا جائے تو اس المیے میں ہماری برسر اقتدار اشرافیہ کا بڑا کردار بھی ہے ،پاکسٹان کے دولخت ہونے کے سانحے سے بھی قیادت نے کوئی سبق نہیں سیکھا ،پاکستان کے سیاسی معاملات میں فوج مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کو تعلیم سے محروم رکھنے کی نفسیاتی اور خود غرضانہ فطرت (تاکہ بیگار اور سستے پڑا (Labor Camp) قائم رکھے جاسکیں) اعلی عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی (عموما انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد(اجارہ داری کے لئے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی طبقے کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بیرونی کشیدگی کی وجہ سے ملک کی معیشت زیادہ ترقی نہیں کر سکی۔ پہلے پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معیشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے)نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شدید کشیدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا بھی تو ملک پرپیدرپے سیاسی انتشار نے معاشی ابتری کا دوبارہ سامان پیدا کردیا ۔ان حالات میں دیکھا جائے تو پاکستان کا ہر شعبہ ہی اس وقت زوال پذیر ہے ، اخلاقی اور سماجی حوالے سے گراوٹ کی طرف سفر کرتی معاشرت نے حقیقی معنوں میں ملک کا دیوالیہ نکال دیا ہے ،قوم ایک ہجوم کی صورت نظر آنا شروع ہوگئی ہے اور کسی سیاسی سرگرمی سے بھی اقدار کی اعلی روایات کی کوئی جھلک تک نظر نہیں آتی ،جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر معاشی بہتری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ،پائیدار ترقی کی بنیاد اعلی اخلاقی اقدار پر مبنی معاشرت کے قیام سے پیوستہ ہوتی ہے۔جب پاکستانی قیادت نے قائد اعظم محمد علی جناح کے قیام پاکستان کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا تو اسی وقت ملک کے دیوالیہ پن کی صورت بن گئی تھی ،کچھ حب الوطنوں کی قربانیوں کے سبب اگرچہ حالات بربادی کے سفر میں مہلت لیتے رہے مگر سب واضح طور پر عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط میں جکڑے ملک کی پھڑپھڑاہٹ دیدنی ہے،ان حالات میں آج بھی پائیدار ترقی کا سفر درست سمت میں شروع ہوسکتا ہے اگراب بھی قیادت اپنی ماضی کی کوتاہیوں کا دل سے اعتراف کرتے ہوئے تباہیوں کا ازالہ کرسکتی ہے ،جس کے لئے ملکی قیادت کو قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے پھیلائی سیاسی افراتفری کو ختم کرنا ہوگا ۔ملک کی معاشی ابتری سے مستقل چھٹکارہ پانے کی خاطر قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں کو حقیقی معنوں میں اپناتے ہوئے انصاف پر مبنی معاشرت کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے کے عمل سے ہی سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوسکتا ہے جس سے ملک کی معاشی ترقی کے تمام راستے خودبخود کھلتے چلے جائیں گے ۔

سلسلہ چشت کا آفتاب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button