اب انصاف کی راہ میں سموسہ نہیں آئےگا،عاصمہ شیرازی نےامیدیں باندھ لیں
آئینی کیسز کے بارے مقدمات ٹیلی وائز ہوں تو بہتر ہے، ہو سکے تو اس بارے بھی ایک کمیٹی بن جائے
اسلام آباد(ویب ڈیسک) خاتون صحافی اورتجزیہ کارعاصمہ شیرازی اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ نے پہلی ہی سماعت اپنے اختیار کو ختم کرنے لیے رکھی اور وہ بھی ٹی وی پر براہ راست نشر کر کے۔ مگر ذرا ٹھہریے جناب چیف جسٹس صاحب! یہ براہ راست نشریہ کچھ خوفزدہ سا کر رہا ہے کہ کہیں آپ ایک اختیار واپس کریں اور عوامی پذیرائی کا اختیار ہاتھ نہ لے لیں۔ جناب یہ عوام پہلے ہی ڈری ہوئی ہے لہٰذا یقین ہے کہ آپ ٹی وی شائقین کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر عدالتی لطف کے سامان کا بندوبست نہیں کریں گے۔ کون سے مقدمات ٹی وی پر دکھائے جائیں اور کون سے نہیں اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے فقط آئینی کیسز کے بارے مقدمات ٹیلی وائز ہوں تو بہتر ہے، ہو سکے تو اس بارے بھی ایک کمیٹی بن جائے۔
جناب گُزارش ہے کہ آپ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے، نگران ہی سہی مگر وزیراعظم بھی بلوچستان سے ہیں اور گو سینٹ کی راہداریوں میں سے لاپتہ افراد پر قانون یقینا غائب ہوا ہے مگر چیئرمین سینیٹ ہیں تو بلوچ۔ اور تو اور وزیر داخلہ بھی بلوچ ہیں لہٰذا اس حسین اتفاق کا فائدہ اُٹھایے اور ہزاروں لاپتہ افراد کا پتہ لگایے جن میں بلوچستان کے ڈاکٹر دین بلوچ، عبدالحمید زہری، تاج محمد سرپرہ، پنجاب کے مدثر نارو، عمران ریاض اور ناکردہ گُناہ کی سزا بھگتنے والے جنید حفیظ جس کا پتہ معلوم مگر نامعلوم، کو بھی انصاف فراہم کیجیے۔
فقط ایک بار 57 ہزار مقدمات کی فائلوں کو چھانٹ لیں، برس ہا برس گرد کی تہوں میں لپٹے مقدمات اور فائلوں کو جھاڑ کر اپنے ادارے میں سیاسی ججوں کو غیر سیاسی اور انسانی حقوق کے مقدمات سونپیں، ڈیڈ لائن مقرر کریں کہ پھانسی شُدہ ملزموں کو رہائی کا حکم اُس وقت نہ ملے جب وہ زندگی سے رہا ہو چکے ہوں۔ ایسے اقدامات کریں کہ وقت پر انصاف کو پھانسی کے پھندے سے بچایا جائے۔
جناب چیف جسٹس صاحب! آپ نے پروٹوکول سے انکار کر دیا، سلامی کے چبوترے پر بھی کھڑے نہیں ہوئے مگر آپ کے ادارے میں موجود جن لوگوں نے اپنے اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا اُن کے احتساب کا بھی کوئی طریقہ کار اختیار کریں۔ نیشنل بینک کے ملازمین کی پنشن کا مسئلہ ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا ریفرنس سب نظریں اب آپ پر ہیں۔
انتخابات قریب ہیں اور آپ نے اہم فیصلے کرنا ہیں لہٰذا سب ذمہ داری اگلے تیرہ ماہ میں آپ کے کندھوں پر رہے گی۔ کیا کریں قاضی صاحب! آپ ایک ہیں اور مقدمات کی طرح اُمیدیں ہزاروں۔ اُمید ہے اب انصاف کی راہ میں سموسہ نہیں آئے گا۔