انتظار کی گھڑیاں ختم، ایشیاء کا سب سے بڑا ایئر پورٹ تیار، پاکستان نمبر لے گیا
بالآخر 19 سال کے طویل انتظار، تعمیر اور بے یقینی کو ختم کرتے ہوئے گوادر کے نئے انٹر نیشنل ایئرپورٹ کو 14 اگست سے آپریشنل کیا جارہا ہے
لاہور(کھوج نیوز) بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئیں، ایشیاء کے سب سے بڑے ایئر پورٹ کو آپریشنل کر دیا گیا ہے ، یہ ایئر پورٹ پاکستان کے شہر گوادر میں تعمیر کیا گیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق کھوج نیوز ذرائع نے بتایا ہے کہ کراچی سے پی آئی اے کی خصوصی پرواز گوادر ایئرپورٹ پر بطور پہلی پرواز لینڈ کرے گی، خیال رہے کہ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے عالمی معیار کے مطابق بنائے گئے ہیں، گوادر ایئرپورٹ کی تیاری میں 54 ارب 98 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ گوادر ایئرپورٹ بہت سے ممالک سے مسافت کو کم کرے گا اور سفر کو محفوظ اور تیز بنائے گا اور اس سے مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ گوادر ایئرپورٹ کا فعال ہونا دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو گوادر کی طرف راغب کرے گا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ گوادر شہر سے 26 کلومیٹرکے فاصلے پر بنا ہے۔ 4 ہزار 300 ایکڑ رقبے پر محیط اس ایئرپورٹ کے رن وے کی لمبائی 2 ہزار میٹر رکھی گئی۔ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے پر دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے ایئربس اے 380 بھی لینڈ اور ٹیک آف کر سکیں گے اور یہ ایئرپورٹ پاکستان کا دوسرا گرین فیلڈ ایئرپورٹ ہے یعنی اس کو بالکل نئے سرے سے تعمیر کیا گیا ہے۔
پاکستان کا پہلا گرین فیلڈ ایئرپورٹ اسلام آباد کا نیا بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔لیکن اس ائیرپورٹ کے فنکشنل ہونے کو 19 برس کیسے لگے یہ دلچسپ مگر تکلیف دہ کہانی ہے۔ 2005 میں پہلی بار تعمیر کے اعلان کے بعد گوادر کے اس نئے ائیرپورٹ کے منصوبے کی تعمیر میں اب تک کئی ڈیڈ لائنز آئیں اور چلی گئیں مگر جب اس کا آغاز کیا گیا تھا تو یہ بات کہی گئی تھی کہ اس کو دو سالوں کے اندر اندر مکمل کیا جائے گا۔ یہ 25 جنوری 2007 کی بات ہے جب سینیٹ میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ نے اس منصوبے کو دو سالوں کے اندر مکمل کرنے کا بتایا۔ اس کے بعد 28 فروری 2008 کو نگران وزیر دفاع نے یہ منصوبہ اگست 2010 تک مکمل ہونے کی نوید سنائی۔ اس کے بعد اکتوبر 2009 کو وفاقی وزیر دفاع چوہدری احمد مختار نے قومی اسمبلی میں ایئرپورٹ کو جون 2012 میں مکمل ہونے کا بتایا۔ 13 جنوری 2010 اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سوِل ایوی ایشن کو احکامات جاری کیے کہ وہ تین سال کے اندر اندر اس ایئر پورٹ کو مکمل کریں۔ اس میٹنگ کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 2020 تک اس ایئرپورٹ پر 350،000 مسافروں کی گنجائش ہو گی۔ اس کے بعد 22 نومبر 2011 کو زیرِ تعمیر گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ جسے 2013 کے آخر میں مکمل ہونا تھا اب دسمبر 2014 کے آخر میں مکمل ہوسکنے کی خبر آئی۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے شروع دن سے جو رقم کی بات کی جا رہی تھی وہ ساڑھے چھ ارب روپے بنتی تھی جو اب بڑھ کر 54 ارب 98 کروڑ روپے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایسے ہی قومی نقصانات ہیں جو ملک میں جاری سیاسی عمل میں کی جانے والی مداخلت کے باعث پاکستان کو اٹھانے پڑ رہے ہیں اور جس کی طرف موجودہ حکومت اور اس کے قائد نواز شریف متعدد بار اشارہ کرتے ہیں۔