انٹیلی جنس ایجنسیوں کےسیاسی ونگزختم،سینئرصحافی نے آئینی ترامیم کی حکومتی واردات کا پردہ فاش کردیا
آئینی عدالت کے قیام کی بات موجود ہے لیکن ساتھ ہی اس میں تمام خفیہ اداروں کے سیاسی ونگز کو ختم کرنے اور انہیں منتخب حکومت کے سامنے جوابدہ بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کے وعدے کا ذکر بھی موجود ہے
اسلام آباد (کھوج نیوز)معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے ایک قومی روزنامہ میں لکھے گئے اپنے کالم میں اگرچہ میثاق جمہوریت میں ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی بات موجود ہے لیکن ساتھ ہی اس میں تمام خفیہ اداروں کے سیاسی ونگز کو ختم کرنے اور انہیں منتخب حکومت کے سامنے جوابدہ بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کے وعدے کا ذکر بھی موجود ہے۔ میثاق جمہوریت پر تمام سیاسی جماعتوں نے بھی دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے پر جزوی طور پر عمل کیا گیا ہے لیکن 18؍ برسوں کے باوجود اس میں شامل کیے وعدے اب تک وفا نہیں ہو پائے۔ سول ملٹری تعلقات کے بارے میں میثاقِ جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی) میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ایم آئی، آئی ایس آئی اور دیگر سیکورٹی ایجنسیاں بالترتیب وزیراعظم سیکریٹریٹ، وزارت دفاع، اور کابینہ ڈویژن کے ذریعے منتخب حکومت کو جوابدہ ہوں گی۔ متعلقہ وزارت کی طرف سے سفارشات تیار کرنے کے بعد ان کے بجٹ کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی منظور کرے گی۔ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سیاسی ونگز ختم کیے جائیں گے۔ ملک کے دفاع اور سلامتی کیلئے مسلح افواج اور سیکورٹی اداروں میں اضافہ کم کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ان ایجنسیوں میں سینئر عہدوں پر تمام تقرریاں متعلقہ وزارت کے ذریعے حکومت کی منظوری سے کی جائیں گی۔ میثاق میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فوجی زمین کی الاٹمنٹ اور کنٹونمنٹ وزارت دفاع کے دائرہ کار میں آئیں گے۔
12ء اکتوبر 1999ء سے لے کر اب تک ریاستی اراضی کی الاٹمنٹ کے تمام معاملات بشمول فوجی شہری اور زرعی اراضی کی الاٹمنٹ کے تمام امور کے ساتھ زمین کی الاٹمنٹ کے ایسے تمام اصولوں، ضابطوں اور پالیسیوں کے جائزے، چھان بین اور جائزے کیلئے ایک کمیشن قائم کیا جائے گا جو اُن لوگوں کا احتساب کرے گا جنہوں نے بدعنوانی، منافع خوری اور جانبداری سے کام لیا ہوگا۔ میثاقِ جمہوریت میں آئینی مسائل کے حل کیلئے ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی بات شامل ہے۔ اس عدالت میں ہر وفاقی اکائی کو مساوی نمائندگی دینے کی گئی ہے۔ دی جاتی ہے، جس کے ارکان ججز یا پھر ایسے افراد ہو سکتے ہیں جو سپریم کورٹ کا جج بننے کے اہل ہوں۔ یہ عدالت 6؍ سال کیلئے قائم ہونا ہے۔ میثاق میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم اور ہائی کورٹس باقاعدہ دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کریں گی۔ نئی عدالت کے ججز کا تقرر ایسے ہی ہوگا جیسے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا ہوتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے تقرر کے حوالے سے میثاقِ جمہوریت میں لکھا ہے کہ ۳(اے) اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کیلئے سفارشات ایک کمیشن کے ذریعے مرتب کی جائیں گی، جو درج ذیل پر مشتمل ہوگا: ۱) کمیشن کا چیئرمین ایک چیف جسٹس ہوگا جس نے پہلے کبھی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو، ۲) کمیشن کے ارکان صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس ہوں گے جنہوں نے کبھی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو، ایسا نہ ہونے کی صورت میں اس ہائی کورٹ کا سینئر ترین جج جس نے حلف نہیں اٹھایا ہو گا اسے رکن بنایا جائے گا، ۳) پاکستان بار اور صوبائی بار کونسلز کے وائس چیئرمین اپنے متعلقہ صوبے میں ججز کے تقرر کے حوالے سے کی تقرری کے لحاظ سے، ۴) کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کے صدور، اپنے متعلقہ صوبے میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے، ۵) وفاقی اور صوبائی (متعلقہ صوبوں کیلئے) وزیر قانون و انصاف، ۶) اٹارنی جنرل آف پاکستان اور متعلقہ صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز (a-i) کمیشن ہر اسامی کیلئے تین ناموں کا ایک پینل وزیر اعظم کو بھیجے گا جو ایک نام کی تصدیق کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے تاکہ عوامی سماعت کے شفاف عمل کے ذریعے نامزدگی کی تصدیق ہو، (a-ii) مشترکہ پارلیمانی کمیٹی 50 فیصد ارکان حکومت اور بقیہ 50 فیصد اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پر مشتمل ہوگی جو متعلقہ پارلیمانی لیڈرز کے ذریعہ نامزد کردہ پارلیمنٹ میں ان کی طاقت کی بنیاد پر ہوں گے۔ میثاقِ جمہوریت میں یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ تمام خصوصی عدالتوں بشمول انسداد دہشت گردی اور احتساب عدالتوں کو ختم کر دیا جائے گا اور ایسے مقدمات کو عام عدالتوں میں چلایا جائے گا۔ مزید قواعد و ضوابط کا ایک سیٹ بنایا جائے گا جس کے تحت مختلف ججوں کو مقدمات کی تفویض اور مختلف بنچوں میں ججوں کی منتقلی کے حوالے سے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات کا استعمال چیف جسٹس اور دو سینئر ترین جج ایک ساتھ بیٹھ کر کریں گے۔
بلدیاتی نظام کے بارے میں میثاقِ جمہوریت میں لکھا ہے کہ بلدیاتی انتخابات متعلقہ صوبوں میں صوبائی الیکشن کمیشن کے ذریعے جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں گے اور بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دیا جائے گا تاکہ وہ خود مختار اور اپنی متعلقہ اسمبلیوں کے ساتھ باقاعدہ عدالتوں کے ذریعے عوام کو بھی جوابدہ ہوں۔ میثاقِ جمہوریت میں تشدد، قید، ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم، ٹارگٹڈ قانون سازی اور سیاسی طور پر محرک احتساب کے متاثرین کو ریلیف دینے کیلئے سچائی اور مصالحتی کمیشن (T&RC) کی تشکیل کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔ کمیشن 1996ء سے فوجی بغاوتوں اور حکومتوں کی برطرفی کے بارے میں نتائج کا جائزہ لے گا اور رپورٹ پیش کرے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ ایک کمیشن کارگل جیسے واقعات کی وجوہات کا بھی جائزہ لے گا اور ذمہ داروں کا تعین کرے گا اور اس کی روشنی میں سفارشات پیش کرے گا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں ایسے نیب آپریٹرز کی نشاندہی اور ان کے احتساب کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے جو جھوٹی گواہی اور انصاف کے بگاڑ اور بیورو کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی، احتساب کے نام پر طاقت کا غلط استعمال میں ملوث ہیں۔ میثاق جمہوریت میں سیاسی بنیادوں پر متحرک نیب کو ایک آزاد احتساب کمیشن سے تبدیل کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ اس آزاد کمیشن کا چیئرمین اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے وزیراعظم نامزد کرے گا اور اس کی توثیق ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کی جائے گی جس میں 50؍ فیصد اراکین حکومت اور بقیہ 50 فیصد ارکان اپوزیشن سے ہوں گے۔ میثاقِ جمہوریت میں مزید کہا گیا ہے کہ نامزد شخص سیاسی غیر جانبداری اپنے فیصلوں سے ظاہر کرے گا، اعتدال پسند خیالات کے معیار پر پورا اترے گا، اور اس نے کبھی موجودہ یا سابقہ وفاقی کابینہ کے رکن یا ان کے اہل خانہ کے کیسز کی سماعت نہ کی ہو۔