اگلے 2 ماہ کےدوران "تضادستان” بنگلہ دیش بننے والا ہے،سینئرصحافی سہیل وڑائچ کاانصافیوں کو دندان شکن جواب
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ دنیا تضادات کا مجموعہ ہے۔ ہر ملک کے اپنے تضادات ہوتے ہیں جو تاریخی واقعات، تعصبات، معاشی مفادات و نقصانات اور مذہبی رجحانات و ثقافتی میلانات کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں
لاہور(ویب ڈیسک) سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ انصافی تضادستانئے کہہ رہے ہیں کہ اگلے 2 ماہ کے دوران تضادستان بنگلہ دیش بننے والا ہے جو سراسر ذاتی خواہشات پر مبنی پروپیگنڈہ ہے ۔ایک قومی روزنامہ میں لکھے گئے اپنے کالم میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ دنیا تضادات کا مجموعہ ہے۔ ہر ملک کے اپنے تضادات ہوتے ہیں جو تاریخی واقعات، تعصبات، معاشی مفادات و نقصانات اور مذہبی رجحانات و ثقافتی میلانات کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ ہم تضادستانیوں کا بنگلہ دیش اور ہے اور وہاں بسنے والے بنگالیوں کا بنگلہ دیش بالکل مختلف ہے۔ جیسے ہم پاکستانیوں کیلئے افغانستان کا تاثر بالکل اور ہے اور وہاں بسنے والے افغانیوں کا اپنے بارے میں تاثر بالکل ہی الگ ہے۔ یہی حال ایران کے بارے میں ہے، ہم ایران کے بارے میں اپنے تاثرات کی بنیاد اپنے تعصبات اور میلانات پر رکھتے ہیں اور بالکل اسی طرح ایرانی ہمارے بارے میں اپنی رائے اپنے تعصبات اور تاریخی تجربات پر رکھتے ہونگے۔ جو شخص اور جو ملک ان تضادات کو کم سے کم کرے اسکی رائے وزنی کہلاتی ہے اور جو ملک یا شخص ان تضادات کی روشنی میں سوچے اسکی رائے اتنی ہی جانبدارانہ اور غیر حقیقت پسندانہ ہو جاتی ہے۔ افغانستان کیلئے ہم نے اپنے تئیں بہت کچھ کیا، دو جنگیں لڑیں مگر کیا افغانی ہمارے احسان مند ہیں؟ بالکل نہیں، گویا ہماری توقعات اور تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش میں جو تبدیلیاں آئی ہیں انکے بارے میں ہماری تضادبیانیاں بہت ہی دلچسپ، متضاد اور قطعی جانبدارانہ ہیں ۔
بنگلہ دیش میں ایک غیر منتخب ٹیکنوکریٹ حکومت آ چکی ہے جسے فوج اور طلبا مظاہرین کی حمایت حاصل ہے۔ فوج جس منتخب حکومت کو سپورٹ کر رہی تھی اب اس سے دستبردار ہو گئی ہے۔ حسینہ واجد بھارت جا چکی ہیں اور بنگلہ دیش ابھی تک مظاہرین کے کنٹرول میں ہے۔ اس حقیقت کو دیکھنے کے اپنے اپنے رنگ ہیں۔ جماعت اسلامی کے حامی تضادستانی خوش ہیں کہ جماعت کے لیڈروں کو پھانسیاں دینے والی حسینہ واجد سیاسی انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ تضادستانی عمومی طور پر خوش ہیں کہ بھارت کی حامی حسینہ واجد چلی گئیں اور اب جو بھی آئے گا وہ پروپاکستان ہو گا، کئی خوش فہم تو اس حد تک چلے گئے کہ اب بنگلہ دیش اور پاکستان کو فورا کنفیڈریشن بنالینی چاہئے، مقتدرہ اور اسکے حامی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جو کہتے تھے کہ دو قومی نظریہ دفن ہو گیا بنگلہ دیش کے حالیہ واقعات کے بعد انہیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی۔ انصافی تضادستانیے کل تک اپنے لیڈر کو آج کا شیخ مجیب قرار دیتے ہوئے فوج کو ظالم کہہ رہے تھے۔ بنگلہ دیش کی آج کی شیخ مجیب، حسینہ واجد اقتدار چھوڑ کر بھاگیں تو یہ انصافی تضادستانیے یوٹرن لیکر اب یک لخت اپنا تقابل طلبا رہنماوں سے کرنے لگے ہیں اور اپنی تحریک کو بنگلہ دیش کی طلبا تحریک کے مماثل قرار دیکر یہ پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ 2ماہ کے اندر تضادستان بھی بنگلہ دیش بننے والا ہے اور یہاں کے حکمرانوں اور جرنیلوں کو حسینہ واجد کی طرح ملک سے بھاگنا پڑے گا۔ افسوس یہ ہے کہ تضادستانیوں کی بنگلہ دیش کے حوالے سے یہ ساری کی ساری تشریحات صریحا غلط ہیں اور ان تشریحات کی بنیاد غیر جانبدارانہ اور منطقی تجزیے نہیں بلکہ ہمارے اپنے اپنے فکری میلانات ہیں۔