پاکستان

ایٹمی ہتھیاروں سےلیس پاکستان کوخدشات پالنے کی ضرورت نہیں،حسین حقانی نےتسلی کروادی

حسین حقانی نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کو خوف یا عدم تحفظ کے خدشات پالنے کی ضرورت نہیں

لاہور ( خصوصی رپورٹ )ایٹمی ہتھیاروں سےلیس پاکستان کوخدشات پالنے کی ضرورت نہیں،حسین حقانی نےتسلی کروادیاپنے کالم میں لکھتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کو خوف یا عدم تحفظ کے خدشات پالنے کی ضرورت نہیں ، اگر پاکستان ایک جدید ریاست کے طور پر کامیاب ہونا چاہتا ہے تو ۔۔۔۔سینئر کالم نگار حسین حقانی نے اہم تجاویز دیدیں ۔

 اپنے بلاگ بعنوان”نظریاتی ریاست سے فعال ریاست تک” میں حسین حقانی نے لکھا ہے کہ پاکستان ایئر فورس کے میاں والی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے فوراً بعد تیرہ وادی میں دہشت گردوں کیساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں پاکستان نے ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت چار فوجی جوان کھو دیئے۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا جو کم از کم گزشتہ ربع صدی سے پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔  اگر پاکستان ایک جدید ریاست کے طور پر کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اسے قوم پرستی کے محدود نظریاتی کوزے سے باہر نکلنا ہوگا۔ پاکستانی لیڈروں کو اپنے عوام کو اس بوجھ سے آزاد کرنا ہوگا کہ وہ مسلسل محاصرے اور خطرے میں ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کو خوف یا عدم تحفظ کے خدشات پالنے کی ضرورت نہیں۔ اور نہ ہی یہ کہ اسلام جو کہ 1400 سال سے پروان چڑھ رہا ہے، خطرے میں ہے۔

اپنے کالم میں حسین حقانی نے مزید لکھا کہ  پاکستان میں پیدا ہونے والا عدم تحفظ در اصل ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ اسکی جگہ اب منطقی خود اعتمادی کو لینی چاہیے۔ جہاد کے نام پر ہونیوالی دہشت گردی پاکستان کیلئے خطرہ ہے اور پاکستان کی خاطر اسکا خاتمہ ضروری ہے۔ نظریاتی قوم پرستی سے فعال قوم پرستی کی طرف تبدیلی درکار ہے۔ ایک بار جب ریاست تکثیری تصور کو ملک کے مستقبل کے طور پر اپنا لیتی ہے جس میں کئی ایک نظریات کارفرما ہوں تو انتہا پسندوں کو بھی پاکستانی سوچ اپنانے میں غنیمت محسوس ہو گی۔ پاکستان کو قومی سلامتی کے دقیانوسی تصورات پر بھی قابو پانا ہو گا۔ اپنے آپ کو ایک ’جنگجو قوم‘ کے طور پر دیکھنے کے بجائے یہ ایک ’تجارتی قوم‘ بنیں جو معاشی مقاصد کیلئے اپنے مقام سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ پاکستان بھارت، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا ءکے درمیان سامان اور خدمات کیلئے آسانی سے ترسیل کا راستہ بن سکتا ہے۔ اس کے ذریعے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں چل سکتی ہیں، اس میں شرکت کرنے کے فوائد ہیں۔

 آخر میں حسین حقانی نے لکھا کہ بھارت اور افغانستان کو مستقل دشمن یا تزویراتی خطرے کے طور پر دیکھنے کے بجائے اہم تجارتی شراکت داروں کے طور پر دیکھا جائے۔ اعلیٰ خواندگی، عالمی رابطے، زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ اور شہریوں کی خوش حالی، متبادل تصور رکھنے والے پاکستان کے اہداف ہونگے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کو مذہب کے نام پر گمراہ افراد کی وجہ سے جان دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی ایسے گمراہ لوگ بیرونی دشمن کے استعمال کیلئے دستیاب ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button