پاکستان

توشہ خان کیس، عمران خان کی سزا میں 6 ماہ کی کمی، لطیف کھوسہ کا دعویٰ

عمران خان کو 3 سال قید ہوئی ہے اور 14 اگست کو صدر پاکستان عام قیدیوں میں سزاؤں میں کمی کا اعلان کیا جس کے مطابق عمران خان کی سزا میں بھی کمی ہوئی

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دعویٰ کیا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم کی سزا میں 6ماہ کی کمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی سزا معطل کرنے کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کر رہے ہیں۔ عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے’ دوران سماعت لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے 14 اگست کو عام قیدیوں کی سزا میں 6 ماہ کی کمی کی جس میں عمران خان بھی شامل ہیں۔ وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ عمران خان کو 3 سال قید ہوئی ہے اور 14 اگست کو صدر پاکستان عام قیدیوں میں سزاؤں میں کمی کا اعلان کیا جس کے مطابق عمران خان کی سزا میں بھی کمی ہوئی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ معاملہ رکھا تھا کیونکہ پہلے عدالتی دائرہ اختیار دیکھا جانا ضروری تھا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ابھی سپریم کورٹ کا آرڈر بھی ملا ہے۔ لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کھوسہ صاحب ماتحت عدلیہ سے غلطی ہوئی ہے لیکن ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ جس پر لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی تین گرانڈز پر سزا معطلی کے لیے دلائل دوں گا۔ ٹرائل کورٹ میں سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا، الیکشن کمیشن کے پاس قانون کے مطابق شکایت دائر کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن شکایت دائر کرنے کے لیے اپنے اختیارات تفویض کر سکتا ہے۔

لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ اس کیس میں شکایت الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے ذریعے دائر کی، الیکشن کمیشن کا سیکریٹری الیکشن کمیشن نہیں، وہ ایسی کوئی شکایت دائر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ الیکشن کمیشن کی تعریف میں چیف اور ممبرز کمیشن شامل ہیں۔ اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو آٹھ سوالات پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا، لیکن ٹرائل کورٹ نے ان سوالات کا جواب دیے بغیر اپنے پہلے آرڈر کو ہی درست قرار دیدیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی نہیں مانا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا شکایت دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں تھا۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے۔ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت غلطیاں ہیں۔ ٹرائل کورٹ میں سماعتوں کا حوالہ دیتے ہوئے لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ شکایت ٹرائل کے لیے براہ راست سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار دیا گیا ہے کہ کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی منظوری کا فیصلہ 4 اگست کی شام ملا مگر دوسری جانب 5 اگست کو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے منشی کو اغواکرلیا گیا جس پر ان کا بیانِ حلفی موجود ہے کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔

لطیف کھوسہ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کیس قابلِ سماعت ہونے پر دوبارہ دلائل سننے کا حکم دیا لیکن ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی، ہمارا اعتراض یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی شکایت درست فورم پر دائر نہیں کی گئی، مذکورہ شکایت مجسٹریٹ کی عدالت میں ہی دائر کی جا سکتی تھی۔ لطیف کھوسہ نے عدالت سے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ کی آبزرویشن بھی ہے لیکن وہ اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ چیف جسٹس عامر فاروق کے استفسار پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ حتمی فیصلے میں ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دی ہیں۔ ٹرائل جج نے آپ کو اگنور کیا ، سوری آپ کے فیصلے کو اگنور کیا۔

عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے، ملزم کو اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا، ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہا ہے آپ کیسے اسے روک سکتے ہیں، 4 گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی 40 تو نہیں تھے۔ لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ گوشوارے جمع کیے جانے کے 120 دن کے اندر شکایت دائر کی جا سکتی ہے، یہ شکایت گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے۔ لطیف کھوسہ کے مطابق عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے، عدالت نے کہا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی اور وکیل صفائی گواہان کو کیس سے متعلقہ ثابت کرنے میں ناکام رہے، اس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کو مسترد کردیا تھا۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل جج صاحب نے کہا گواہان آج عدالت میں بھی موجود نہیں، گواہان اس روز کراچی میں موجود تھے، عدالت نے پوچھا آپ کیوں پیش کرنا چاہتے ہیں گواہان کو؟ میرے گواہ ہیں، میں اپنے خرچے پر پیش کر رہا ہوں، آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ 4 اگست کو ہائیکورٹ کا آرڈر آیا، آپ نے قابل سماعت کا معاملہ ریمانڈ بیک کیا، 5 تاریخ کو میں نے آپ کا آرڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، خواجہ حارث کے کلرک کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، خواجہ حارث نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام درخواست لکھی اور معاملہ بتایا، خواجہ صاحب 12 بج کر 15 منٹ پر ٹرائل کورٹ پہنچ گئے، جج صاحب نے کہا اب ضرورت نہیں، آپ آرڈر سنیں۔ لطیف کھوسہ کے مطابق 12 بج کر 30 منٹ پر جج صاحب نے شارٹ آرڈر سناتے ہوئے 3 سال کی سزا سنا دی،12 بج کر 35 منٹ پر پتہ چلا لاہور پولیس گرفتار کرنے پہنچ گئی، فیصلے کے پانچ منٹ بعد گرفتاری کے لیے پہنچ گئے۔ مجھے چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ ان کے واش روم سمیت گھر کے دروازے توڑے گئے۔ توشہ خانہ کیس میں دائر اپیل پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ اپنے دلائل مکمل کرنے کے بعد عدالت کی اجازت سے ڈاکٹر بابر اعوان اور سینیٹر علی ظفر کے ہمراہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ روانہ ہوگئے۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے جوابی دلائل کا آغاز کردیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button