جنرل حمید گل نے کیا کیا گل کھلائے، جنرل پاشا سے جنرل ظہیر الاسلام تک تمام کردار بے نقاب
ایوب خان نے خود آئین توڑ کر قبضہ کیا' اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر پہلے دو ہزار کے قریب سیاستدانوں کو بدنام زمانہ قوانین، پروڈا اور ایبڈو کے تحت نااہل اور سیاست سے بے دخل کیا
اسلام آباد(کھوج نیوز) جنرل حمید گل نے کیا کیا گل کھلائے؟ جنرل پاشا سے جنرل ظہیر الاسلام تک تمام کردار بے نقاب ہونے کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغازہوگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و کالم نگار مظہر عباس نے اپنے کالم میں لکھا کہ جنرل گل نے خود جو سیاسی گل کھلائے وہ بھی انتہائی درد ناک ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست کے تصور نے قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی اس نئی ریاست کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ چند سال میں ہی اندازہ ہو گیا کہ اس ملک کی سمت کیا ہو گی سوال یہ کہ اگر 1951میں، راولپنڈی سازش کیس میں ایک حکومت کے خاتمہ کی سازش میں 11فوجی افسران اور 4سویلین کو بھی لمبی سزائیں ہو سکتی تھیں تو 1958 میں میجر جنرل اور صدر اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے خلاف 1956کا آئین توڑنے اور مارشل لا لگانے پر بغاوت کا مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا۔ اگر اس وقت ہم یہ راستہ روک دیتے تو شائد ملک میں کسی دوسرے آئین کی ضرورت رہتی نہ کوئی مارشل لا لگتا، مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا اور نہ ہی آج ہم جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی بات کر رہے ہوتے۔ آگے بڑھنے کا راستہ اب بھی یہی ہے کہ سیاسی مداخلت ختم کی جائے اور سیاستدان معاملات کو سیاسی انداز میں حل کریں ہر وقت گیٹ نمبر 4 کی طرف نہ دیکھیں۔ کم از کم ان سے ہی سبق لیں جو دن رات اس گیٹ کی بات کرتے تھکتے نہیں تھے… اور پھر… کیا ہوا ان کے ساتھ۔
انہوں نے مزید کالم میں لکھا کہ ایوب خان نے خود آئین توڑ کر قبضہ کیا’ اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر پہلے دو ہزار کے قریب سیاستدانوں کو بدنام زمانہ قوانین، پروڈا اور ایبڈو کے تحت نااہل اور سیاست سے بے دخل کیا پھر اپنا من پسند نظام بنیادی جمہوریت نافذ کیا۔ پنڈی سازش کیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف بغاوت کا پلان ڈراپ کر دیا گیا تھا مگر پھر بھی سازش کے الزام میں میجر جنرل اکبر خان سمیت 11افسران اور کمیونسٹ رہنما سجاد ظہیر اور نامور شاعر فیض احمد فیض کو سزائیں ہوئیں۔ اب بات فیض احمد فیض سے جنرل فیض تک آ گئی ہے۔ یہی ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ پہلو ہے کہ 77سال میں چارمارشل لا لگے ہر مارشل لا کو اعلی عدلیہ جائز کہتی رہی۔ اگر سابق صدر اسکندر مرزا جنہوں نے پہلا مارشل لا لگایا اور بعد میں خود اپنے ہی نامزد کردہ وزیر دفاع جنرل ایوب خان کے ہاتھوں رسوا ہوئے۔ دونوں کا احتساب ہو جاتا تو اس ملک میں نہ تین اور آمرانہ ادوار آتے، مارشل لا لگتے اور نہ ہی سیاسی معاملات میں فوج اور آئی ایس آئی کی سیاسی مداخلت بڑھتی،نہ ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنتا۔ اگر ان کا احتساب ہو جاتا تو نظریہ ضرورت والی عدلیہ جنم ہی نہ لیتی نہ ہی آج ہم آزادی صحافت پر یلغار دیکھتے۔ عین ممکن تھا کہ 1956کا آئین آج بھی موجود ہوتا جس کے تحت اکتوبر1958 میں عام انتخابات ہو جاتے اور یہ ملک کسی سمت چل پڑتا۔جب آئین توڑنے اور مارشل لا لگانے کو درست عمل کہا جائے گا تو جنرل یحیی ہی آئیں گے۔ جنرل ضیا بھی اور جنرل مشرف بھی حکمران بنیں گے نواز شریف بھی سیاسی پروجیکٹ کے طور پر لائے جائیں گے اور عمران خان بھی، درجنوں مسلم لیگیں بھی بنیں گی اور جماعتیں بنانے، توڑنے، حکومتیں بنانے اور گرانے کا عمل جاری رہے گا۔