جنرل (ر) فیض حمید کو انڈر ورلڈ گینگ کےسربراہ،حامد میر نےتمام گتھیاں سلجھا دیں سابق آرمی آفیسرکا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا
حامد کا کہنا ہے کہ میرا خیال تھا کہ مجھے موصوف کے بارے میں بہت کچھ پتہ ہے لیکن کل ایک دوست کے ہاں تین ایسی شخصیات سے ملاقات ہوئی جنکی گفتگو سنکر ایسا محسوس ہوا کہ فیض حمید 2019ء سے 2021ء تک کسی سراغرساں ادارے کے نہیں بلکہ کسی انڈرورلڈ گینگ کے سربراہ تھے
سینئرصحافی اوراینکرپرسن حامد میر نےایک قومی روزنامہ میں لکھے گئے اپنے بلاگ میں جنرل (ر) فیض حمید کو انڈر ورلڈ ڈان کیسے قرار دیا،سابق آرمی آفیسر کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔حامد میر لکھتے ہیں کہ ہم نے سیاستدانوں کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں تو بہت سنی تھیں۔ کل دوپہر کو ہمیں ایک ایسے شخص کی کرپشن کہانیاں سننے کا موقع ملا جو کئی سال تک بہت سے سیاستدانوں کیلئے عجب بھی تھا اور غضب بھی تھا۔ اس شخص کا نام فیض حمید تھا۔
حامد کا کہنا ہے کہ میرا خیال تھا کہ مجھے موصوف کے بارے میں بہت کچھ پتہ ہے لیکن کل ایک دوست کے ہاں تین ایسی شخصیات سے ملاقات ہوئی جنکی گفتگو سنکر ایسا محسوس ہوا کہ فیض حمید 2019ء سے 2021ء تک کسی سراغرساں ادارے کے نہیں بلکہ کسی انڈرورلڈ گینگ کے سربراہ تھے۔ فیض حمید کی لوٹ مار کے قصے سن کر مجھے اعتراف کرنا پڑا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں اور فیض کی کرپشن کا سراغ لگانے کیلئے کئی امتحاں اور بھی ہیں۔
اس محفل میں موجود ایک کاروباری شخصیت نے کوئی سنی سنائی بات نہیں کہی بلکہ وہ تو اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے۔ 2021ء میں ان صاحب پر ایک جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور پھر فیض حمید نے خود انہیں فون کرکے کہا کہ میرا فلاں افسر آپ کو فون کریگا اس کی بات سن لیجئے گا۔ پھر فیض کے ایک ماتحت نے اس کاروباری شخصیت کو فون کرکے کہا کہ پانچ ارب روپے کیش کا بندوبست کریں۔ اسی طرح کی کئی کہانیاں سن کر میں نے حیرانی سے پوچھا کہ فیض حمید اتنی رقم کہاں رکھتے تھے؟ محفل میں موجود ایک اور صاحب نے بتایا کہ فیض حمید نے باقاعدہ ایک ڈائری میں حساب کتاب لکھ رکھا تھا۔
اس قسم کی رقوم وہ اپنے مختلف پارٹنرز کے حوالے کر دیتے تھے اور وہ ان رقوم کو ہائوسنگ اسکیموں یا دیگر کاروباری منصوبوں میں انویسٹ کر دیتے تھے اور اس ڈائری میں موجود تفصیلات کے مطابق فیض حمید نے مختلف کاروباری منصوبوں میں 30ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ یہ رقوم کسی بینک کے ذریعے ٹرانسفر ہوئیں نہ کسی تحریری معاہدے میں انکا ذکر آیا لہٰذا فیض حمید کا ایک بزنس پارٹنر اب یہ چاہتا ہے کہ فیض صاحب کو ایسی سزا ہو کہ وہ اگلے دس پندرہ سال تک باہر نہ آئیں اور نہ ہی اپنے اربوں روپے کا حساب کتاب مانگیں۔
فیض حمید کی کرپشن کہانیوں کے ان عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ نومبر 2016ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی مہربانی سے جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے تو انکے سسر اعجاز امجد کی سفارش سے فیض حمید کو جنوری 2017ء میں آئی ایس آئی کا ڈی جی کائونٹر انٹیلی جنس لگایا گیا۔ باجوہ نے فیض حمید کو ایک طرف سیاسی جوڑ توڑ میں استعمال کیا اور دوسری طرف اسکے ذریعے اپنے کئی ذاتی مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ فیض حمید پر ناصرف اپنے باس کی اصلیت کھل گئی بلکہ اُن پر کئی سیاستدانوں کی حقیقت بھی واضح ہوگئی جنہیں بند کمروں میں دبانا بڑا آسان تھا۔
حامد کا کہنا ہے کہ میرا خیال تھا کہ مجھے موصوف کے بارے میں بہت کچھ پتہ ہے لیکن کل ایک دوست کے ہاں تین ایسی شخصیات سے ملاقات ہوئی جنکی گفتگو سنکر ایسا محسوس ہوا کہ فیض حمید 2019ء سے 2021ء تک کسی سراغرساں ادارے کے نہیں بلکہ کسی انڈرورلڈ گینگ کے سربراہ تھے