پاکستان

دہشتگردوں کا بلوچستان میں موت کا منافع بخش کاروبار

ن لیگی کی جانب سے سابق فاٹا، کراچی اور باقی ملک میں فوجی آپریشن کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں نسبتاً کمی آئی تھی: رپورٹ

لاہور (رپورٹ: کھوج نیوز) دہشتگردوں کا بلوچستان میں موت کا منافع بخش کاروبار اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بلوچستان اس وقت بھی پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے لیکن وہاں جاری خون خرابہ کی صرف یہی واحد وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اسے تفصیل سے سمجھنا ضروری ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اکبر بگٹی کی ہلاکت کے واقعے کے پیچھے یقینی طور پر اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف کی ناتجربہ کاری اور ہٹ دھرمی کار فرما رہی جس نے ملک دشمن ممالک کو پاکستان میں انتشار کا بھرپور موقعہ فراہم کیا، ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد 18 ویں ترمیم نے جہاں صوبوں کو بے پناہ خودمختاری دی وہیں قومی مالیاتی ایوارڈ میں انکے حصے کی رقم کو بھی کئی گنا کردیا۔ اس کے بعد توقع تھی کہ اپنے حقوقِ کے لیے لڑتے افراد واپس قومی دھارے میں شامل ہوکر اپنے علاقوں کے لیے کام کریں(جس میں کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی) مگر ملک سے باہر بیٹھے دہشتگردی سے براہ راست مالی طور پر مستفید ہوتے سردار اور افراد نے ان دشمن ممالک سے ملکر کاروائیوں کو جاری رکھا۔ اگر ہم 2013 سے دیکھیں تو وہ آخری برس تھا جب یہ گروپ بڑی تعداد میں کارروائی کرنے میں کامیاب رہے اس کے بعد 2014 میں گزشتہ برس کی نسبت 30 فیصد 2015 میں 48 فیصد 2016 میں 28 فیصد 2017 میں 16 فیصد 2018 میں 29 فیصد جبکہ 2019-20 میں 13 اور 36 فیصد کم دہشتگردی کے واقعات ہوئے۔ پاکستان گذشتہ 20 سالوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے ان میں 2009 کو سب سے خونریز سال قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم 2012ء تک دہشت گرد حملوں میں کمی دیکھی گی گئی لیکن پھر 2013ء میں ان حملوں میں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد 2020ء تک یہ گراف نیچے کی جانب ہی دیکھا گیا لیکن جب طالبان نے 15اگست2021ء کو کابل کا کنٹرول سنبھالا تو اس کے بعد سے پاکستان میں ہر سال دہشت گردی کی وارداتوں اور اس کے نتیجے میں اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ گذشتہ برس اگر صرف بلوچستان کی ہی بات کی جائے تو کم از کم 170 حملے ہوئے، جس میں 151 عام افراد اور 114 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ بلوچستان دراصل دہرے نشانے پر ہے، ایک طرف علیحدگی پسند ہیں تو دوسری جانب فتنہ الخوارج گروہ ہے۔ اب آئیے کہ ان گروپوں کو کن کی حمایت اور مدد حاصل ہے تو ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ نامور بھارتی صحافی پالیوال نے 2008ء میں دعویٰ کیا کہ اگر ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں بلوچ باغیوں کی براہ راست حمایت سے انکار کر دیتیں تب بھی یہ امکان نہیں تھا کہ وہ متحرک رہتے۔ ان واقعات کا مستقل مشاہدہ کرنے والے بھارتی دانشور اٹل کھرے نے تصدیق کی کہ بھارت کے بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے ہیں۔ بھارت نے بلوچ رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اکبر بگٹی کے بیٹوں اور پوتوں کو (محدود) تحفظ فراہم کیا تھا۔ جنوری 2009 میں بلوچ عسکریت پسندوں نے پاکستان کے خلاف اپنے حملے جاری رکھے تو پاکستان اور برطانیہ دونوں کا ماننا تھا کہ بھارت بلوچ عسکریت پسندوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ ہندوستانی اخبار دی ہندو نے رپورٹ کیا کہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے کمانڈروں نے ماضی میں ہندوستان کے ہسپتالوں میں اکثر بھیس بدل کر یا جعلی شناخت کے ساتھ علاج کروایا۔ ایسے ہی ایک معاملے میں، خضدار شہر کا انچارج ایک عسکریت پسند کمانڈر 2017 میں کم از کم چھ ماہ تک دہلی میں مقیم تھا جب کہ اس نے گردے سے متعلق بیماریوں کا وسیع علاج کروایا گیا۔ بلوچ عسکریت پسندوں کے ہندوستان کے دورے اکثر فرضی شناخت کے تحت ہوتے ہیں اسی طرح، بلوچ لبریشن آرمی کے ایک اور کمانڈر، اسلم بلوچ (عرف اچھو) بھی ہندوستان گیا، جہاں ا اس نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی جو اسکے نام نہاد بلوچی کاز سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اسلم بلوچ پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ نئی دہلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ ہند بلوچ فورم کے بانی جیتندر نند سرسوتی نے دعوی کیا کہ ہندوستانی "بلوچستان کی جدوجہد آزادی” میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں۔دوسری جانب 2010 میں شائع ہونے والی وکی لیکس کیبلز کے مطابق افغانستان کے اس وقت کے صدر حامد کرزئی کئی سالوں تک براہمداغ بگٹی کو پناہ دتے رہے۔براہمداغ بگٹی 20 کے قریب علیحدگی پسندوں کے ساتھ 2006 میں افغانستان فرار ہو گئے تھے اور ان کی افغانستان میں موجودگی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی پیدا کر دی تھی۔ 2007 میں پاکستانی حکومت نے بگٹی کے آزادانہ طور پر کابل اور قندھار کے درمیان سفر کرنے کی نشاندھی کی اور ثبوت فراہم کئے کہ وہ پیسہ اکٹھا کر رہا تھا اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ پاکستان نے بار بار حامد کرزئی سے بگٹی کو حوالے کرنے کا کہا جس سے کرزئی نے انکار کر دیا۔ عوامی سطح پر، افغان حکام نے بگٹی کو پناہ دینے سے انکار کیا، لیکن بعد میں، اقوام متحدہ کے حکام اور کرزئی کے درمیان 2009 میں ہونے والی ملاقات کے بعد، اس بات کا اعتراف کیا کہ براہمداغ بگٹی واقعتا کابل میں ہی رہ رہا تھا۔ برطانوی اخبار دی گارڈین سے بات کرتے ہوئے براہمداغ بگٹی نے اعتراف کیا کہ وہ پاکستان کی فوج کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہا ہے 2010 میں وہ سوئٹزرلینڈ گیا اور وہاں رہائش اختیار کی۔2017ء میں، اس کی سیاسی پناہ کی درخواست کو سوئس حکام نے اس بنیاد پر مسترد کر دیا تھا کہ وہ "دہشت گردی، تشدد اور عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کے واقعات” سے منسلک ہے۔ بہرحال یہ طے ہے کہ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مسلسل تیسرے سال دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ درحقیقت، سال 2020ء آخری وہ سال تھا جس میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نسبتا کمی آئی تھی۔ جس کی واحد وجہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے سابق فاٹا، کراچی اور باقی ملک میں فوجی آپریشن کے بعد ملک بھر میں وسیع انسداد عسکریت پسندی مہم بشمول نیشنل ایکشن کے حصے کے طور پر منصوبہ بندی کی گئی لیکن 2021ء میں عمران خان حکومت کے کچھ متنازعہ فیصلوں کے بعد سے یہ گرتا ہوا رجحان برقرار نہیں رہا اور دہشت گردی کے واقعات حملوں میں اضافہ ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button