شیخ مجیب الرحمن کو ہیرو کہنے والوں کو منہ کی کھانی پڑگئی: عطاء اللہ تارڑ نے کھری کھری سنا دی
آئین میں فلور کراسنگ جائز نہیں،مخصوص نشستوں معاملے پر وقت کا دھاراپیچھے موڑا گیا، ریلیف ایسے فریق کو دیا گیا جس نے مانگا ہی نہیں تھا: وفاقی وزیر اطلاعات
اسلام آباد (کھوج نیوز)وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان عوام اور حکومت بنگلہ دیشی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم اس کو سراہتے ہیں کہ بنگلہ دیشی لوگوں نے مزاحمت کی، عزم اور حوصلہ دکھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے شیخ مجیب کو ایک ہیرو کے طور پر دکھایا تھا، اپنا موازنہ شیخ مجیب سے کیا اور کہا میرے ساتھ وہی ہورہا ہے جو اس کے ساتھ ہوا تھا، اب جب شیخ مجیب کے مجسمے گرائے گئے تو کہتے ہیں دیکھیں عوام نے کیا کیا؟، اب اپنا ایمان بدل لیا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کا عمل کچھ ہے اور الفاظ کچھ، سیاست کریں مگر اسلام کو استعمال نہ کریں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ پر بات ہونی چاہئے کہ یہ قانون کس نظریئے سے بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل لیگی رہنماء بلال کیانی جبکہ سینیٹ میں طلال چوہدری نے پیش کیا،بل کثرت رائے سے منظور ہونے کے بعد قانون بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلور کراسنگ کے حوالے سے آئین واضح ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، فرض کریں کے کوئی آزاد امیدوار مسلم لیگ (ن) کا ایفیڈیوٹ جمع کرواتا ہے تو رولز یہ کہتے ہیں کہ 3 دن کے اندر پارٹی وابستگی ظاہر کرنی ہوتی ہے، اگر حلف نامہ کسی دوسری پارٹی کا دے دیا تو کیا وہ ختم ہوسکتا ہے؟،کیا اسے ختم کرنے کے بعد دوسری پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں؟،کیا کسی کی حلف اٹھائے ہوئے ممبر کی رکنیت کو ختم کر کے نئے ممبران کو فلور کراسنگ کروا کر نئی پارٹی جوائن کروائی جاسکتی ہے؟ یہ پیچیدہ صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک رول پہلے ہی موجود تھا کہ 3 دن کے اندر آزاد امیدوار نے پارٹی میں شامل ہونا ہے، اس بل کے ذریعے اس رول کو قانون میں بدل دیا گیا ہے، یہ پریکٹس اور رول دونوں موجود ہیں، متناسب نمائندگی بارے سپریم کورٹ کے 2 ججز نے اہم سوالات اٹھائے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 51، 62، 63 اور 106 کو معطل کرنا پڑے گا،فیصلے پر عمل درآمد کیلئے آئین کے کچھ آرٹیکلز کے سکوپ سے باہر بھی جانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ججز نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ 15 دن گزر گئے مگر اکثریت کی طرف سے ججمنٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری کیوں نہیں کیا گیا؟ جب آئین واضح کہتا ہے کہ کسی بھی جماعت کو مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے فارمولے کے تحت دی جائیں گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جماعتیں جو پارلیمان میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ سنی اتحاد کے چیئرمین نے سنی اتحاد کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا نہ ان کی جماعت کا پارلیمان میں کوئی وجود تھا، اگر آزاد امیدوار ایم ڈبلیو ایم جوائن کرتے تو شائد سیٹیں مل جاتیں، اب پارٹی کے الیکشن نہ کرائیں اور کہیں کہ سیٹیں مل جائیں اور ایک ایسی پارٹی جوائن کریں جس کا پارلیمنٹ میں وجود نہیں اور پھر کہیں متناسب نمائندگی کے تحت ہمیں سیٹیں دی جائیں تو یہ کیسا انصاف ہے؟۔انہوں نے کہا کہ متناسب نمائندگی کیلئے ضروری ہے کہ ہر سیاسی جماعت شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کے امیدواروں کی فہرستیں آویزاں کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس شیڈول کو بھی سپریم کورٹ کے فیصلے نے ختم نہیں کیا، اگر ہم نے 15 خواتین اور 10 اقلیتوں کی لسٹ دی ہے تو وہ شیڈول کے مطابق انتخاب سے قبل لگنی ہوتی ہے تاکہ ووٹر کو مطلع کرسکیں کہ انہیں ہم نے چنا ہے،یہ ووٹر کے اوپر ہے کہ وہ الیکشن میں اس چوائس کے مطابق ہمیں ووٹ دیتا ہے یا نہیں دیتا۔