صحافی حامد میر نےایران کےروحانی پیشوا آیت اللّٰہ علی خامنہ ای کو ٹارگٹ کرنےکا اسرائیلی منصوبہ بےنقاب کردیا
حامد میر نےایک قومی روزنامہ میں لکھےگئے بلاگ میں کہا ہے کہ اسرائیل نے 2008ء میں حسن نصر اللّٰہ کے ایک قریبی ساتھی عماد فایز مغنیہ کو دمشق میں نشانہ بنا کر پوری دنیا کو بتا دیا کہ شام کے دارالحکومت میں اس کا ایک نیٹ ورک کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے
اسلام آباد(ویب ڈیسک) صحافی اوراینکرپرسن حامد میر نےایک قومی روزنامہ میں لکھےگئے بلاگ میں کہا ہے کہ اسرائیل نے 2008ء میں حسن نصر اللّٰہ کے ایک قریبی ساتھی عماد فایز مغنیہ کو دمشق میں نشانہ بنا کر پوری دنیا کو بتا دیا کہ شام کے دارالحکومت میں اس کا ایک نیٹ ورک کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے۔ عماد فایز مغنیہ دمشق کے ایرانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے گئے، ان کی گاڑی سفارت خانے کی پارکنگ میں کھڑی تھی۔ اسرائیلی جاسوسوں نے ان کی گاڑی کا ایک ٹائر بدل ڈالا، نیا ٹائر بارود سے بھرا ہوا تھا۔ عماد فایز مغنیہ واپس آئے اور گاڑی اسٹارٹ کی تو دھماکا ہو گیا۔ 2020ء میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں ایک امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا۔ اس حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا اور جنرل قاسم سلیمانی کی نقل و حرکت کے بارے میں امریکا اور اسرائیل کو اطلاع فراہم کرنے والے شخص کا نام محمود موسوی تھا، جسے ایران میں پھانسی دیدی گئی۔ 31جولائی 2024ء کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران میں نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے سے پوری دنیا کو پتہ چل گیا کہ اسرائیل نے ایران کے دارالحکومت کے اندر ایک مضبوط نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔
اسرائیل کے جاسوسی نیٹ ورک صرف ایران، شام، عراق اور لبنان میں نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ کئی مسلم ممالک میں اسرائیلی نیٹ ورک مسلمان رہنماؤں کو براہِ راست ٹارگٹ کرنے کی بجائے ان ممالک میں فرقہ وارانہ نفرتیں بھڑکاتا ہے اور مذہبی تعصب کی آگ بھڑکانے والوں کی خفیہ امداد کرتا ہے۔ حماس اور حزب اللّٰہ دراصل اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کے ردِ عمل میں قائم ہوئیں۔ اسرائیل 1982ء میں لبنان پر حملہ نہ کرتا تو حزب اللّٰہ قائم نہ ہوتی۔ فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہو جاتا تو حماس بھی قائم نہ ہوتی لیکن اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے اسرائیلی ریاست نے فلسطین سے لبنان تک بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں۔ کسی مغربی ملک نے اسرائیل کو دہشت گرد قرار نہیں دیا۔ دوسری طرف حزب اللّٰہ کو امریکا اور یورپ سمیت کئی عرب ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ صرف چین، روس، شمالی کوریا اور شام حزب اللّٰہ کو دہشت گرد نہیں سمجھتے، خود ہی سوچیے کہ جو کچھ غزہ اور بیروت میں ہو رہا ہے کیا اس کے بعد دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ نہیں ہو رہی؟ حسن نصر اللّٰہ کی جگہ نعیم قاسم کو حزب اللّٰہ کا نیا سیکریٹری جنرل بنایا گیا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حسن نصر اللّٰہ نے اپنی زندگی میں نعیم قاسم کو حزب اللّٰہ کے آئندہ سربراہ کے طور پر اجاگر کرنا شروع کر دیا تھا۔
نعیم قاسم کی کتاب ’’حزب اللّٰہ‘‘ کے کئی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نعیم قاسم اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت پالیسی اختیار کرنے کے حامی ہیں۔ میں نے یہ کتاب 2006ء میں بیروت میں پڑھی تھی اور مجھے وہاں یہ پتہ چلا تھا کہ حسن نصر اللّٰہ نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو ایک ریڈ لائن تک محدود کر رکھا ہے تاکہ اسرائیل لبنان پر اتنی بم باری نہ کرے کہ لبنان کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہو جائے۔ نعیم قاسم اسرائیل کے خلاف ویسے ہی حملوں کے حامی رہے ہیں جیسا حملہ اکتوبر 2023ء میں حماس نے کیا۔ نعیم قاسم نے اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ دشمن کی مضبوط فوج اور ایئر پاور کا واحد حل فدائی حملے ہیں۔ اگر نعیم قاسم نے حزب اللّٰہ کو اسی راستے پر ڈال دیا جس کی نشاندہی انہوں نے کئی سال قبل اپنی کتاب میں کی تھی تو مشرقِ وسطیٰ کی جنگ دیگر خطوں میں بھی پھیلے گی۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللّٰہ علی خامنہ ای کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ نیتن یاہو کے پاس ایئر پاور اور امریکی ڈرون ہیں۔ نعیم قاسم کے پاس ہزاروں فدائی حملہ آور ہیں۔ افسوس کہ ہم ایئر پاور اور فدائی حملہ آوروں کی ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں زمینی فوجیں زیادہ اہم نہیں ہوں گی۔ عالمی برادری اس نئی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہ ہوئی تو دنیا حسن نصر اللّٰہ کو بھول جائے گی۔ یقین نہ آئے تو حسن نصر اللّٰہ کے جانشین کی کتاب ’’حزب اللّٰہ‘‘ پڑھ لیں۔