عمران خان” بوٹ کو عزت دو "کےنعرے کیساتھ وزیراعظم بنے،سلیم صافی نےکچا چٹھا کھول دیا
،سلیم صافی لکھتے ہیں کہ ہم زندہ نہیں بلکہ باؤلی قوم ہیں،ہر فرد مفاد پرست ہے لیکن توقع لگائے بیٹھا ہے کہ لیڈر قوم پرست بن جائیں۔
اسلام آباد ( ویب رپورٹ )عمران خان” بوٹ کو عزت دو "کےنعرے کیساتھ وزیراعظم بنے،سلیم صافی نےکچا چٹھا کھول دیا،سلیم صافی لکھتے ہیں کہ ہم زندہ نہیں بلکہ باؤلی قوم ہیں،ہر فرد مفاد پرست ہے لیکن توقع لگائے بیٹھا ہے کہ لیڈر قوم پرست بن جائیں۔عمران خان” بوٹ کو عزت دو "کے نعرے کیساتھ لیڈر اور حکمران بنے تھے لیکن آج انہوں نے نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کو اپنا لیا ہے، یوں دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے کہ انکا انجام بھی وہی ہوگا جو نواز شریف کا ہوا اور انہیں تب معافی ملے گی جب وہ ووٹ کو عزت دو کی بجائے بوٹ کو عزت دو کے بیانئے پر آجائیں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی کھل کر بول پڑے ۔
اپنے بلاگ بعنوان "ہم باؤلی قوم ہیں؟” میں سلیم صافی نے لکھا کہ معاف کیجئے لیکن ہم زندہ نہیں بلکہ باؤلی قوم ہیں۔ ذاتی معاملات میں ہم دماغ سے لیکن قومی معاملات میں جذبات اور تعصبات سے کام لیتے ہیں۔ اس قوم کا ہر فرد مفاد پرست ہے لیکن توقع لگائے بیٹھا ہے کہ ہمارے لیڈر قوم پرست بن جائیں۔خود بڑھک باز ہیں لیکن توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ قیادت سنجیدہ اور مثبت عمل کرنیوالی ملے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی نیلسن مینڈیلا ہے اور نہ طیب اردوان۔ ہماری قیادت نے قسم کھائی ہے کہ ماضی سے سبق نہیں لینا۔ یقین نہ آئے تو تازہ ترین صورتحال ملاحظہ کیجئے۔
عمران خان کو قوم نے بہت محبت دی لیکن دوران اقتدار انہوں نے وہی غلطیاں دہرائیں جو زرداری صاحب کرتے رہے اور اب وہ اسی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں جو 90ء کی دہائی میں یا پھر 2018ء میں اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرکے نواز شریف نے کی۔انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ طیب اردوان ہیں اور نہ انکی پارٹی، اردوان کی پارٹی لیکن اسٹیبلشمنٹ سے تنازع مول لے لیا۔عمران خان” بوٹ کو عزت دو "کے نعرے کیساتھ لیڈر اور حکمران بنے تھے لیکن آج انہوں نے نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کو اپنا لیا ہے، یوں دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے کہ انکا انجام بھی وہی ہوگا جو نواز شریف کا ہوا اور انہیں تب معافی ملے گی جب وہ ووٹ کو عزت دو کی بجائے بوٹ کو عزت دو کے بیانئے پر آجائیں۔
اپنے بلاگ میں سلیم صافی نے مزید لکھا کہ میاں نواز شریف کے کردار کو ملاحظہ کیجئے۔ وہ ہمیشہ بوٹ کو عزت دیکر اقتدار میں آتے ہیں لیکن مقتدر بننے کے بعد طیب اردوان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انکی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ووٹ کو عزت دو کے بیانئے کیساتھ کبھی اقتدار میں نہیں آئے۔عوامی قوت کو اپنانے اور اپنی جماعت کے اندر جمہوریت لاکر مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی بجائے وہ بوٹ کو عزت دیکر اقتدار میں آتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کرکے طیب اردوان بننے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ایوان اقتدار سے باہر نکال کر جیل یا بیرون ملک پہنچا دیا جاتا ہے۔افسوس کہ میاں نواز شریف نے بھی ماضی سے کوئی سبق نہیں لیا اور اب ایک بار پھر وہ ووٹ کو عزت دو کے بجائے بوٹ کو عزت دو کے بیانئے کے ساتھ اقتدار میں آنے کی غلطی دہرا رہے ہیں۔
زرداری صاحب بھی غلطیاں دہرانے کے حوالے سے انتہائی مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں۔ وہ بیک وقت ووٹ کو عزت دو اور بوٹ کو عزت دو کے بیانیے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور چالاکی سے کام لیتے ہیں۔ کبھی انکی یہ چالاکی کام کر جاتی ہے اور کبھی الٹا پڑ جاتی ہے۔اب بھی وہ بیک وقت ووٹ کو عزت دو اور بوٹ کو عزت دو کی پالیسیاں ایک ساتھ چلا رہے ہیں۔ یہی معاملہ باپ پارٹی، ایم کیوایم، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی اور بڑی پارٹیوں سے نتھی ہوکر اقتدار میں آنے کی کوشش کرتی ہیں اور اب کی بار ان میں سے بھی ہر ایک، یہی غلطی دہرا رہی ہے۔
بلاگ میں سلیم صافی نے مزید لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں لے گی ۔ اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ سیاست سے لاتعلق نہیں ہوتی۔ کبھی نواز شریف کو مسیحا کے طور پر قوم کے سروں پر مسلط کردیتی ہے اور کبھی عمران خان کو۔ پھر جب وہ سچ مچ حکمران بننے کی کوشش کرتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ ان کی چھٹی کرانے میں لگ جاتی ہے ۔
بلاگ کے آخر میں سلیم صافی نے لکھا کہ انتخابات سے غیرمعمولی توقعات وابستہ کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔اگلے انتخابات صرف اس حوالے سے مختلف ہوں گے کہ جو کچھ عمران خان 2018 کے انتخابات میں کررہے تھے، وہ اب نواز شریف کریں گے اور جو نواز شریف نے اس وقت کیا تھا، وہ اب عمران خان کر رہے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ نے سابقہ الیکشن میں جو سلوک نواز شریف کیساتھ کیا تھا، وہ اب کی بار عمران خان کے ساتھ کرے گی اور عمران خان پر جو عنایتیں کی تھیں ، وہ اب نواز شریف پر کرے گی۔ یوں جلسے جلوس بھی ہوں گے۔ سیاسی ہلہ گلہ بھی ہوگا۔لیکن جس طرح 2018ء کے الیکشن میں نتیجہ پہلے سے معلوم تھا، اسی طرح 2024ء کے انتخابات کا نتیجہ بھی پہلے سے معلوم ہے بلکہ نتیجہ تو کیا، پھر انتخابات کے نتیجے کا جو نتیجہ نکلے گا، اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے مزاج کی روشنی میں اس کی بھی پہلے سے پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔