فضل الرحمن کی اچانک تمام سیاسی پارٹیوں سے علیحدگی، بڑا بریک تھرو کا امکان
اسٹیبلشمنٹ سمیت میاں نواز شریف اور صدر آصف زرداری نے مولانا کو منانے کے لیے علیحدہ علیحدہ کوششوں کا آغاز کردیا ہے : ذرائع کا دعویٰ
لاہور(رپورٹ ، کھوج نیوز) مولانا فضل الرحمن کل وقتی سیاستدان اور ایک صدی پر محیط مذہبی سیاسی تاریخ رکھنے والی جماعت کے سربراہ ہیں۔ گزشتہ دس برس کے دوران ہونے والے واقعات اور تحریکوں کو دیکھیں تو لوگوں کا یہ کہنا کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں فوج کے بعد اگر کسی کے پاس منظم طاقت اور سٹریٹ پاور ہے تو وہ جے یو آئی (ف) ہے اور اس جماعت کو مسلسل متحرک رکھنا بھی ان ہی کا کام ہے۔ ملک میں 70 سالوں کے دوران سیاست اور جمہوریت کا کیا حال ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور کمزوری کیا؟ کس موقع پر سیاست کی کونسی کل سیدھی کی جانی چاہیے، کسے اور کتنا مروڑنا ہے۔ موجودہ سیاست دانوں میں مولانا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔یاد کیجئے جب 2019 میں بھی مولانا نے ابھی آزادی مارچ کا صرف اعلان کیا تھا اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن جیسی تجربہ کار جماعتوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مولانا کا کرنا کیا ہے؟ حالانکہ مولانا بذاتِ خود اس وقت بھی پارلیمنٹ سے باہر تھے اور 342 کی قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کی صرف 16 سیٹیں اور 104سیٹوں کے ایوانِ بالا میں محض چار سینیٹرز تھے۔ دراصل یہ پہلا موقع تھا جب مولانا نے تو سیاسی کھیل کو شاندار طریقے سے اختتام پذیر کیا لیکن اسٹیبلشمنٹ میں موجود چھوٹے اور جھوٹے لوگوں نے انہیں دھوکہ دیا۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے کبھی بھی نہ تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے کسی بھی قسم کی توقعات وابستہ کی ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سب سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملی کو کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں اور یہی معاملہ پی ٹی آئی کے حوالے سے بھی ہے جب جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کو پختونخوا اسمبلی تحلیل اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا کہا تھا تو وہ جانتے تھے کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں علی امین گنڈاپور کبھی کے پی حکومت سے دستبردار نہیں ہوں گے اور ایسا ہی ہوا، یوں نہ صرف جے یو آئی نے پاکستان تحریک انصاف کے فارم 47 والے بیانیہ کو غلط ثابت کیا بلکہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی بار بار ملاقاتوں سے اس کے کارکنان کو بھی یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ انکی قیادت سے ماضی میں مولانا کے بارے موقف دیتی رہی وہ سب جھوٹ پر مبنی ہے۔یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے طویل قربت کے باوجود مولانا فضل الرحمن اصل میں موجودہ سیٹ اپ سے ناراض کیوں ہیں؟
اس حوالے سے جے یو آئی ذرائع نے کھوج نیوز کو بتایا ہے کہ 2023 ء کے انتخابات سے قبل ان جماعتوں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ کم از کم دو صوبوں میں جمعیت علمائے اسلام حکومتوں کی بڑی شریک ہوگی مگر علی امین گنڈاپور آخری وقت میں اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی انتخابات میں جے یو آئی کو آن بورڈ لینے سے انکار کردیا اسی لئے مولانا فضل الرحمن انہیں اس سیاسی تنہائی کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ماہ جے یو آئی کے عوامی امن جلسوں کے اعلان، جس میں 5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے خلاف ملک گیر یوم سیاہ، 10 اگست کو مردان میں کسان کنونشن، 11 اگست کو پشاور میں تاجر کنونشن جبکہ 18 اگست کو لکی مروت میں امن کنونشن کے اعلان کے باوجود جے یو آئی کا سڑکوں پر دکھائی نہ دینا کسی مصالحت کی طرف اشارہ تھا اور اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت میاں نواز شریف اور صدر آصف زرداری نے مولانا کو منانے کے لیے علیحدہ علیحدہ کوششوں کا آغاز کردیا ہے جس کے بعد جلد کسی بڑے بریک تھرو کا امکان ہے اور مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر ملکی سیاست میں اہم کھلاڑی کے طور پر نظر آئیں گے۔