قومی اورصوبائی اسمبلیوں کو یہ اختیارحاصل نہیں کہ وہ آرٹیکل 8 سے 28 تک سےمتصادم ترامیم کرسکیں،جسٹس منصور علی شاہ ڈٹ گئے
منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو یہ اختیارحاصل نہیں کہ وہ ایسی قانون سازی کریں جو آرٹیکل 8 سے 28 تک متصادم ہوں
اسلام آباد(کھوج نیوز)قومی اورصوبائی اسمبلیوں کو یہ اختیارحاصل نہیں کہ وہ آرٹیکل 8 سے 28 تک سےمتصادم ترامیم کرسکیں،جسٹس منصور علی شاہ ڈٹ گئے۔رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئرجج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو یہ اختیارحاصل نہیں کہ وہ ایسی قانون سازی کریں جو آرٹیکل 8 سے 28 تک متصادم ہوں ،جس منصور علی شاہ نے قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے والے مجوزہ آئینی ترمیم بل پر تبصرہ کررہے تھے جن میں آئینی عدالت کے قیام سمیت متعدد دیگر ترامیم شامل کی گئی ہیں ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ آئین اور قانوں کی محافظ ہے اور جب بھی وقت آئے گا اعلیٰ عدلیہ ایسے غیر آئینی اقدامات کے خلاف متحد نظر آئے گی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ جاری کردیا۔یہ فیصلہ ایک ٹیکس مقدمہ میں 41 صفحات پر مشتمل تھا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو آرٹیکل 142 قانون سازی کو اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی بھی کر سکتی ہے جس کا ماضی سے اطلاق ہوتا ہو۔ قوانین کے ماضی سے اطلاق ہونا آئین سے مشروط ہے
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ لفظ آئین سے مشروط کا مطلب واضح ہے کہ قانون سازی آئین میں دی گئی حدود کے مطابق ہی ممکن ہے، آئین پارلیمان پر پابندی عائد کرتا ہے کہ آرٹیکل 9 اور 28 میں دیے گئے حقوق ختم نہیں کیے جا سکتے، آرٹیکل 12 کے مطابق فوجداری معاملات میں قوانین کے ماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا، صرف آئین شکنی سے متعلق فوجداری معاملے پر قانون سازی ماضی سے ہوسکتی ہے، سول حقوق کو ماضی سے لاگو کرنے کا پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو اختیار نہیں،
قانون کے ماضی سے اطلاق سے فریقین کے حقوق متاثر ہوسکتے ہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا کہ شہریوں کو موجودہ قوانین کا علم ہوتا ہے جس کے مطابق وہ اپنے امور انجام دیتے ہیں، عدالت نے سوال اٹھایا کہ مستقبل میں اگر کوئی قانون بنے تو اس کا ماضی کے اقدامات پر اطلاق کیسے ممکن ہے؟ عدالتوں کو سمجھنا ہوگا کہ قوانین کے ماضی سے اطلاق سے حتمی ہوچکے معاملات بھی دوبارہ کھل سکتے ہیں، کسی قانون کی دو تشریحات ممکن ہوں تو وہی کرنی چاہیے جو لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے، فیصلہ
جتنی زیادہ ناانصافی ہوگی مقننہ کا کردار بھی اتنا ہی واضح ہونا چاہیے، عدالت ماضی میں قرار دے چکی کہ قانون میں ترمیم یا قانون ختم کرنا ایک ہی جیسا ہے، کوئی بھی ترمیم دراصل کسی نہ کسی انداز میں قانون یا کسی شق کا خاتمہ ہی ہوتا ہے، ماضی سے اطلاق صر ف انہی قوانین کا ممکن ہے جو پہلے سے دیے گئے حقوق کو ختم نہ کرے، عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نجی کمپنیوں کی اپیلیں جزوی طور پر منظورکرلی۔