پاکستان

مخصوص نشستوں پر فیصلے کے متعلق اختلافی نوٹ، عطاء اللہ تارڑ نے بڑا بیان داغ کر بولتی بند کر دی

سپریم کورٹ کے دو ججوں نے مخصوص نشستوں کے فصلے پر اختلافی نوٹ میں اہم نکات اٹھائے ہیں اور اس کیس میں اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو درخواست گزار ہی نہیں تھی

اسلام آباد(کھوج نیوز) وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے مخصوص نشستوں پر فیصلے کے متعلق اختلافی نوٹ آنے پر بڑا بیان داغ دیا ہے کہ جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی بولتی بند ہو گئی ہے۔

تفصیلا ت کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ 15 دن گزرنے کے باوجود نہیں آ سکا۔ انہوں نے کہا کہ عموما فیصلہ سنائے جانے کے 15 دن کے اندر تفصیلی فیصلہ جاری ہو جاتا ہے۔ آئین کے کچھ آرٹیکلز مخصوص نشستوں سے متعلق ہیں، مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں ان آرٹیکلز سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے اپنے اختلافی نوٹ میں آئینی اور قانونی نکات اٹھائے ہیں، یہ نکات لیگل فریم ورک پر بڑا سوالیہ نشان ہیں، ان کا جواب آنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے ممبران اگر ایوان میں سنی اتحاد کونسل سے اٹھ کر تحریک انصاف کی صفوں میں بیٹھیں گے تو یہ آرٹیکل 62(1)F کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا حتی کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔وفاقی وزیر کے مطابق اختلافی نوٹ میں یہ بات بھی درج ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا اور آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہو گا۔ تحریک انصاف عدلیہ کے سامنے درخواست گزار کی حیثیت سے موجود ہی نہیں تھی، لیکن ان کے 81 ممبران کو ریلیف دیا گیا اور وہ لوگ جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر آئے اور حلف اٹھا چکے تھے، ان کی رکنیت ختم کر دی گئی۔ ان کی رکنیت ختم کرنے سے پہلے جو مراحل طے ہوئے، وہ قانونی طور پر اپنی جگہ موجود ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے اپنے آئین میں لکھا ہے کہ کوئی اقلیتی رکن ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتا، اس طرح انہیں اقلیتی نشستیں بھی نہیں مل سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا، ان کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور تحریک انصاف کے سابقہ ممبران نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کرنا مناسب سمجھا جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس پر آئین اور قانون واضح ہیں، آئین کے تحت ان سیاسی جماعتوں جو پارلیمان میں موجود ہیں، کو متناسب نمائندگی کے فارمولے کے تحت مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button