مرکز میں حکومت کون بنائے گا؟ سرکاری دفاتر اور گلی محلوں میں شرطیں لگ گئیں
سرکاری افسروں کی نظریں حکومت سازی کی طرف ہیں جبکہ بیورو کریسی کے اکثر افسروں کا کہنا ہے کہ جو بھی حکومت آئے گئی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گئی
لاہور(فیض احمد) ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات کے متعلق کئی روز گزر جانے کے باوجود مرکز میں حکومت کون بنائے گا؟ اس حوالے سے سرکاری دفاتر اور گلی محلوں میں شرطیں لگ گئیں۔
تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں ہونے والے جنرل الیکشن کے متعلق کئی روز گزر جانے کے باوجود وفاقی و صوبائی سرکاری اداروں ،مارکیٹوں اور گلی محلوں میں تاحال بحث کا سلسلہ جاری ہے سرکاری افسروں سمیت ملازمین کا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے کہ مرکز میں کون حکومت بنائے گا جو حکومت بنے گئی وہ کتنے سال چلے گئی عمران خان جیل سے باہر آ ئے گا یا نہیں حکومت کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور کیا جو حکومت آئے گئی وہ مہنگائی کم کرنے میں کامیاب ہو گئی یا نہیں یا پھر ملک میں مزید مہنگائی کا طوفان آئے گا۔تفصیلات کے مطابق ملک میں الیکشن ہوئے کئی روز گزر گئے ہیں لیکن تاحال الیکشن کے رزلٹ سمیت مرکز میں کون حکومت بنائے گا مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتیں کیا ایک ساتھ چل سکیں سرکاری اداروں میں سارا دن موضوع بحث بنا رہتا ہے سرکاری افسروں کی نظریں حکومت سازی کی طرف ہیں جبکہ بیورو کریسی کے اکثر افسروں کا کہنا ہے کہ جو بھی حکومت آئے گئی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گئی جس کے بعد ملک میں نئے الیکشن ہوں گئے اور اسی وجہ سے میاں نواز شریف نے خود وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح مہنگائی کے طوفان سے بچنے اور ساکھ برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی فی الحال وزارتیں لینے سے انکار کر رہی ہے اور بعض سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے رہی ہیں ۔اسی طرح پبلک مقامات،تقریبات اور گلی محلوں میں ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی ماحول پر بحث معمول بن گئی ہے۔ذرائع کے مطابق سیاسی ماحول میں تلخی آنے اور تناو پیدا ہونے سے کاروباری شخصیت بھی پریشان ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے ملکی معیشت پر اچھے اثرات نہیں پڑ رہے اور دن بدن کاروباری طبقہ پستا جا رہا ہے۔اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کو مستحکم بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔