پاکستان

مہل بلوچ  خودکش حملہ کرنےکیسےپہنچ گئی،وفاقی وزراء کا مؤقف تضادات کا شکار،صحافی حامدمیر نےحقائق کھول کررکھ دئیے

حامد میر نے لکھا کہ بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں 26 اگست کو بے گناہ اور غیر مسلح سویلینز کو بسوں سے اتار کر گولیاں مار دی گئیں۔ حملہ آوروں نے اکثر مسافروں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا۔ اکثر مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہروں سے تھا

اسلام آباد ( ویب ڈیسک )مہل بلوچ  خودکش حملہ کرنےکیسےپہنچ گئی،وفاقی وزراء کا مؤقف تضادات کا شکار،صحافی حامدمیر نےحقائق کھول کررکھ دئیے بلوچستان میں جگہ جگہ حملے کیوں ہوئے،مہل بلوچ  خودکش حملہ کرنے کیسے پہنچ گئی،  وفاقی وزراء کا مؤقف تضادات کا شکارکیوں۔۔۔؟سینئرصحافی و تجزیہ کار حامد میر نے تمام تر اہم تفصیلات اور حقائق کھول کر رکھ دئیے

 اپنے بلاگ بعنوان "بلوچستان کا مستقبل؟” میں حامد میر نے لکھا کہ بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں 26 اگست کو بے گناہ اور غیر مسلح سویلینز کو بسوں سے اتار کر گولیاں مار دی گئیں۔ حملہ آوروں نے اکثر مسافروں کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا۔ اکثر مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہروں سے تھا۔ کچھ وسطی پنجاب اور 2 بلوچستان سے تعلق رکھتے تھے یہ دونوں پشتون تھے۔ 26 اگست کو یہاں جو قتل عام ہوا اس میں2 پشتون بھی مارے گئے لیکن میڈیا نے ان 2 پشتونوں کو نظر انداز کیا۔اس سانحے کے بعد حملہ آوروں کی فوری گرفتاری پر توجہ دینے کی بجائے ان معاملات کو اچھالا گیا جن کا بلاواسطہ دہشت گردوں کو فائدہ ہوا۔

حامد میر لکھتے ہیں کہ حکومت کے وزراء نے حملہ آوروں کو لاپتہ افراد قرار دینا شروع کردیا اور مطالبہ شروع کردیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والی ماہ رنگ بلوچ اس سانحے کی مذمت کرے۔  جنوبی پنجاب کے کچھ دانشوروں نے شکوہ کیا کہ قتل ہونے والوں میں اکثریت سرائیکیوں کی تھی لیکن میڈیا نے انہیں پنجابی کیوں قرار دیا؟ یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کے ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانے کے لیے یکجہتی کی ضرورت تھی لیکن اس معاملے میں وفاقی وزراء کا مؤقف تضادات کا شکار تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے فرمایا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے کسی بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں یہ دہشت گرد تو ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف فرماتے رہے کہ دہشت گردوں کے پیچھے بھارت ہے اور ان کے خلاف فوج سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ایک بڑا آپریشن کرے گی۔ 26 اگست کے اس سانحے نے بلوچستان کے علاقے بیلہ میں ہونے والے ایک اور بڑے حملے کو پس منظر میں دھکیل دیا جس میں تربت یونیورسٹی کی ایک طالبہ مہل بلوچ بھی شامل تھی۔

مہل بلوچ قانون کی طالبہ تھی اور حملے کے بعد مجید بریگیڈ نے اسکی تصویر بھی جاری کی۔ سوشل میڈیا پر سرگرم کچھ سرکاری سائبر کمانڈوز نے اس مہل بلوچ کو ایک اور مہل بلوچ کے ساتھ کنفیوژ کر دیا جو گزشتہ سال گرفتار ہوئی تھی۔ گرفتار ہونے والی مہل بلوچ 2 بچوں کی ماں تھی اور اس نے دوران حراست ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ اس کا تعلق بی ایل ایف کے ساتھ ہے۔ بیلہ میں خودکش حملہ کرنے والی مہل بلوچ کا تعلق گوادر کے ایک معروف سیاسی گھرانے سے تھا۔ ہم نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ تربت یونیورسٹی کے ایک گرلز ہاسٹل سے ایک بلوچ طالبہ بیلہ میں خودکش حملہ کرنے کیسے پہنچ گئی؟ سب کو یہ فکر تھی کہ ماہ رنگ بلوچ حملہ آوروں کی مذمت کب کرے گی؟ سوال یہ ہے کہ کیا کسی نے ماہ رنگ بلوچ کے والد غفار لانگو کی حراست میں موت کی مذمت کی تھی؟ اس پہلو کو بھی نظرانداز کر دیا گیا کہ 26اگست کے دن بلوچستان میں جگہ جگہ حملے کیوں ہوئے؟

حامد میر نے بلاگ میں مزید لکھا کہ26 اگست بلوچستان کے سابق گورنر اور سابق وزیراعلیٰ نواب اکبر بگٹی کا یوم شہادت ہے۔ 26 اگست 2006ء کو کوہلو کے پہاڑوں میں ایک آپریشن کے بعد جنرل پرویز مشرف نے سینہ تان کر کہا تھا کہ ہاں ہم نے ریاست کے ایک دشمن کا خاتمہ کر دیا۔نواب اکبر بگٹی نے تمام عمر پاکستان کے خلاف ایک لفظ نہ کہا تھا۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کی مدد کی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ وہ 1958ء میں ملک فیروز خان نون کی حکومت کے وزیر داخلہ تھے اور انہوں نے گوادر کو پاکستان میں شامل کرانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ خان آف قلات میر احمد یار خان بلوچ ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہوئے۔ پاکستانی ریاست نے انہیں بلوچ شناخت کے ساتھ ایک صوبہ دینے کا وعدہ کیا لیکن ون یونٹ بنا کر ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی۔ اس وعدہ خلافی کے خلاف نواب نوروز خان نے بغاوت کی تو قرآن کا واسطہ دیکر انہیں مذاکرات پر راضی کیا گیا۔ 90 سالہ نواب نوروز خان قرآن کے نام پر پہاڑوں سے نیچے اتر آئے لیکن جنرل ایوب خان نے انہیں اور خان آف قلات کو جیل میں ڈال دیا۔ اسی قسم کے مذاکرات جنرل پرویز مشرف نے 2006ء میں چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کے ذریعے نواب اکبر بگٹی کے ساتھ کیے اور آخر میں مذاکرات کے نام پر دھوکہ کیا۔ 80 سال کے نواب اکبر بگٹی کو شہید کرکے لواحقین کو ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھنےدی گئی۔ 

بلاگ کے آخر میں حامد میر نے لکھا کہ  بگٹی صاحب کے صاحبزادے جمیل اکبر بگٹی کو انصاف مل جاتا تو شائد وہ حالات پیدا نہ ہوتے جن سے آج بلوچستان دوچار ہے۔ حالات کو سدھارنے کی بجائے بلوچستان میں ایک ایسی حکومت قائم کر دی گئی ہے جو صوبے کے عوام میں انتہائی غیر مقبول ہے۔ یہ حکومت ہروقت یہی کہتی رہتی ہے ہم آئین کو نہ ماننے والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آئین کو نہ ماننے والے بھی آپ سے مذاکرات پر راضی نہیں دوسری بات یہ ہے کہ جو آئین کو مانتے تھے اور بندوق کی بجائے ووٹ کی سیاست کرتے تھے انہیں فارم 47 کے کرشمے سے قومی دھارے سے نکال کر عسکریت پسندوں کو مضبوط کیا گیا۔

 آج پھر بلوچستان پر بھٹو کی پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ بھٹو نے اپنی کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ میں اعتراف کیا کہ فوجی جرنیلوں نے بلوچستان میں ان سے غلطیاں کرائیں۔ آج کی پیپلزپارٹی کو شائد اس کتاب کا ہی پتہ نہ ہو بلوچستان کے مسئلے کا حل نہ بندوق ہے نہ جھوٹ ہے جو بھی فریق بے گناہوں کے خلاف بندوق استعمال کرتا ہے وہ شیطان کا ساتھی ہے۔ فریقین خدا خوفی کریں اور ظلم بند کر دیں تو بلوچستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button