پاکستان میں دہشت گردی کیوں ختم نہیں ہو گئی؟ بین الاقوامی ادارے کی چونکا دینے والی رپورٹ
افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں بدستور عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے جاری آپریشنز کو نئے نام دیے جا رہے ہیں : تجزیہ کار
اسلام آباد(کھوج نیوز) پاکستان میں دہشت گردی کیوں ختم نہیں ہوسکتی، بین الاقوامی ادارے کی چونکا دینے والی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ایک نئی ہلچل مچ گئی جس کے بعد سب حیران رہ گئے۔
تفصیلات کے مطابق سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے معاملے میں کچھ بہتری بھی آئی ہے اور سب سے زیادہ قابلِ ذکر بہتری بلوچستان میں دیکھی گئی جہاں تشدد میں 46 فی صد کمی آئی۔ پہلی سہ ماہی میں بلوچستان میں 178 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے جب کہ دوسری سہ ماہی میں یہ تعداد 96 ہو گئی ہے۔ تاہم پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 13 اور 31 اموات کے اضافے کے ساتھ تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
”دی آر ایس ایس”کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا اور بلوچستان صوبے پرتشدد واقعات کے مراکز رہے جہاں اس عرصے میں تقریبا 92 فی صد اموات اور 87 فی صد دہشت گردانہ کارروائیاں اور آپریشنز ہوئے۔شہروں میں24 افراد کو ہدف بنایا گیا جنہیں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شناخت کے بعد نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے چار کان کن اور دو پولیو ورکرز بھی تشدد کا شکار ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں 11 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پولیس اور فوج کے اہلکار اکثر دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنتے رہے۔ پولیس اہلکاروں میں دو ڈی ایس پی بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گنوائیں جب کہ 31 پولیس اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے۔ رپورٹ کے مطابق رواں برس کی دوسری سہ ماہی کے دوران آرمی کیپٹن سمیت 65 کے قریب سپاہی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ ایک سابق بریگیڈیئر بھی نامعلوم حملہ آوروں کے حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔
رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ دوسری سہ ماہی میں ملک بھر میں تشدد اور اموات کی شرح میں کمی آئی اور ملک میں مجموعی طور پر تشدد میں 12 فی صد کمی ہوئی۔ پہلی سہ ماہی میں 432 کے مقابلے دوسری سہ ماہی میں 380 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں بدستور عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے جاری آپریشنز کو نئے نام دیے جا رہے ہیں لیکن ان مسائل کے مکمل حل کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔