پاکستان

17اگست ضیاء الحق کی طیارے حادثے میں موت اور نواز شریف کے وعدے

جس وقت ضیاء الحق کو فیصل مسجد کے احاطے میں دفنایا جارہا تھا اس وقت نوازشریف نے اعجازالحق کیساتھ کھڑے ہو کر جنرل ضیاء الحق کو اپنا روحانی باپ قرار دیا تھا

لاہور(رپورٹ: شکیلہ فاطمہ) آج پھر 17 اگست ہے اور ضیاء الحق کی برسی کا دن ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کے گارڈ فادر کیلئے نواز شریف نے کوئی بیان دیا نہ کوئی پریس کانفرنس کی۔ حالانکہ جس وقت ضیاء الحق کو فیصل مسجد کے احاطے میں دفنایا جارہا تھا تو اعجازالحق کے ساتھ کھڑے ہو کر جنرل ضیاء الحق کو اپنا روحانی باپ قرار دے کر کہا تھا کہ وہ ضیاء الحق کے مشن کو پورا کریں گے۔ وہ مشن کونسا تھا ؟ اس کے بعد بار بار نواز شریف برسر اقتدار میں آئے آج بھی انکی بیٹی اور بھائی اس ملک کے سفید و سیاہ کے مالک ہیں لیکن ان کے طیارے کے حادثے کا ذکر تک کرنے سے گریزاں ہیں۔ ایسا کیوں ہے کیا محسنوں کا احسان ایسے اتارا جاتا ہے ؟ 17 اگست 1988ء کو ضیاء الحق کا طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہوگیا اور اس طیارے میں امریکی سفیر بھی موجود تھا لیکن آج تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ طیارہ کیسے تباہ ہوا اور یہ قتل کس نے کئے۔ اسلم بیگ کو عین وقت پر طیارے میں سوار ہونے سے کیوں روک دیا گیا اور آج نواز شریف اپنے اور خاندان کے محسن کو کیوں بھول گئے اور آج تک انہوں نے ان کے مشن جسکی تکمیل کی ۔ انہوں نے قسم کھائی تھی اس کے بارے کیوں نہیں بتایا کہ آخر وہ مشن تھا کیا کیونکہ بظاہر تو ان کا مشن اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنا تھا خواہ اس کیلئے جو بھی کرنا پڑے اور ن لیگ بھی اس معاملے میں تو انکی پیروکار دکھائی دیتی ہے شاید یہی مشن ہوگا۔ نواز شریف تو جنڈیالہ شیر خان کو بھی بھول گئے ، ایم ٹو پر”وارث شاہ” انٹرچینج کا نام تبدیل کر کے ایک مغل بادشاہ کے جاہلانہ عمل کی ترویج کیلئے نام ہرن مینار رکھ دیا کیونکہ وارث شاہ کا نام جنڈیالہ شیر خان سے جڑا ہے انکا مزار وہاں ہے جو اس انٹرچینج سے صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جنڈیالہ کے نام سے ان کے محسن گورنر جنرل غلام جیلانی خان کا نام جڑا ہے اور وہ کبھی اپنے محسنوں کا یاد کرنا مناسب نہیں سمجھتے اسی لئے جب اس انٹرچینج کا افتتاح فرمایا تو نشاندہی والے بورڈوں پر بھی ککڑگل لکھوایا لیکن جنڈیالہ نہیں لکھا گیا تھا۔ ککڑگل جنڈیالے سے کہیں آگے ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جبکہ جنڈیالہ صرف چار کلومیٹر پر محیط ایک بڑا قصبہ، قانونگوئی ہے ۔ ہیر کے تخلیق کار وارث شاہ کا مزار ہے جن کو پنجابی ادب کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور وہ ایک صوفی بزرگ بھی تھے بھٹو نے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے پورا وارث کمپلیکس تعمیر کروایا تھا۔ تو بات ہو رہی تھی ضیا الحق کی اور نواز شریف جو انہوں نے سرپرستی فرمائی تھی اور جنہوں نے اسے ہزاروں لوگوں کے مجمع میں اپنا روحانی باپ کہا تھا آج اسی روحانی باپ کو بھول چکے ہیں آج انکی قبر پر جا کے فاتحہ خوانی کی زحمت بھی نہیں فرما رہے۔ یہ دنیا مفادات پر چلتی ہے لیکن مکافات عمل اٹل ہے اس وقت سوچا گیا کہ فیصل مسجد میں قبر بنائیں گے تو یہاں فاتحہ خوانی کرنے والوں کا تانتا بندھا رہے گا لیکن کچھ ہی سال بعد وہ مزار ایک اجڑی قبر کا منظر پیش کرنے لگا وہاں کوئی فاتحہ خوانی کرنے نہیں جاتا لوگ بھول گئے جن پر احسان تھے وہی بھول گئے تو باقی جن کو کوڑے مارے گئے، ظلم کئے گئے ، پھانسیاں دی گئیں، بیروزگار کیا گیا ، وہ کس لئے جائیں گے یہی ہے مکافات عمل جو اٹل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button