9مئی واقعات کو جو کچھ بھی ہوا وہ عمران خان کی ڈائریکشن نہیں تھی اور نا ہی پارٹی کی پالیسی تھی: علی محمد خان
ملکی بقاء کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا، صاف اور شفاف الیکشن سے جو بھی جماعت جیتے گی اس کو من و عن سے قبول کرنا ہوگا
لاہور(کھوج نیوز) 9مئی واقعات کو جو کچھ بھی ہوا وہ عمران خان کی ڈائریکشن نہیں تھی اور نا ہی پارٹی کی پالیسی تھی، وہ جس نے بھی کیا غلط کیا ہم چاہتے ہیں جس سے یہ غلطی ہو گئی ہے اور جو نقصان ہوا تھا اس کو سزا ضرور ملے ، قانون اور آئین کے مطابق سزا ملے،
علی محمد خان نے کہا کہ میرا مؤقف ہے کہ قانون اور آئین کے مطابق سزا ضرور ملے لیکن اگر ریاست اور ریاستی ادارے اس میں صبر ، ہمدردی اور درگزر سے کام لیں کیونکہ یہی ملک کے بچے ہیں جن سے یہ غلطی ہوئی ہے اور ماں معاف بھی کرتی ہے تنبیہہ بھی کرتی ہے، ہو گئی تنبیہہ اور معاف بھی کرتی ہیں یہ ہمارے ہی بچے ہیں انہوں نے ہی آگے بڑھ کر پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد اور ریاست پاکستان زندہ باد اور پاکستان کی عوام زندہ باد سارا کام انہوں نے ہی کرنا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ان کو بھی موقع ملے لیکن اگر موقع نہیں بھی دینا تو سزا صرف ان کو ملے جن سے غلطی ہوئی باقی تو پونے دو کروڑ ووٹ لینے والی جماعت کو کیسے سائیڈ لائن کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک تو اس 9مئی سے اب ہمیں آگے جانا ہوگا اس ملک کو بہتری کی طرف لے کر جانا ہوگا اور وہ آدمی جس نے اس ملک کے نوجوانوں کو پاکستان کی محبت میں اکٹھا کیا اس سے سارے منتشر تھے کسی کو بھی سیاست میں دلچسپی نہیں تھی لیکن پاکستان کی محبت میں پلیٹ فارم پر لے کر آئے کہ آپ آئو اس ملک کو ٹھیک کرنے میں اپنا کردار ادا کرو۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ جو ہو رہا ہے بلکل قطعی نامناسب ہے اور وہ اس وقت جن کیسز کا سامنا کر رہے ہیں وہ ویسے بھی پاکستان کی اس سے بدنامی ہو رہی ہے کہ پاکستان کا سابق وزیراعظم کو کس کیس میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جناب اس کو سیکریٹ آئوٹ کیا ہے اس بیچارے نے کیا سیکرٹ آئوٹ کرنا ہے وہ پہلے ہی ڈی کلاسائیفائیڈ ہو چکا ہے اور انہوں نے تو کوئی ایسی سیکریٹ تحریر بھی کسی کو پڑھ کر نہیں سنائی بلکہ وہ کابینہ کے ممبر تھے ان کو بھی سائفر نہیں دیکھاگیا صرف اس کے مندرجات کا خلاصہ کیا گیا جب اس کو ڈی کلائیفائی کر رہے تھے جو سائفر ڈی کلائیفائی ہو چکا ہے اس پر کیا کیس بنتا ہے بلکہ اصل تو یہ چیز تھی کہ یہ چیز سامنے آئے کہ کوئی بیرونی طاقت کیسے ہمیں اپنے اشاروں پر نچا سکتی ہے کسی کی کیا جرأت ہے وہ یہ کہہ کہ اس کو ہٹائو تو یہ ہو جائے گا اس کو ہٹائو تو وہ ہو جائے گا ، عمران خان اگر ہٹ جاتے ہیں تو ہم آپ کو معاف کر دیتے ہیں اور اگر نہیں ہٹیں گے تو ہم آپ کو سخت معاملات کا سامنا کرنا پڑے گایہ چیز یں کسی بھی غیرت مند قوم کے خلاف ہے ۔
میرے خیال سے ان بوگس کیسوں سے کچھ نہیں نکلنا، اس طریقے سے کسی کو مائنس ون یا سائیڈ لائن بھی نہیں کیا جاسکتا تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مل کر بیٹھنا چاہیے اور ان مسائل کا حل نکالنا چاہیے الیکشن کی طرف ملک کو لیجانا چاہیے ۔ میں عمومی بات کرتا ہوں کہ کسی بھی جماعت کا ورکر ہو چاہیے وہ ن کا ہو یا پیپلز پارٹی کا ، تحریک انصاف کا ہے سب کے سب محب وطن پاکستانی ہیں صرف پالیسی کا اختلاف ہو سکتا ہے کسی کو نواز شریف پسند ہیں تو کسی کو آصف علی زرداری تو کسی کو عمران خان پسند ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں ایسا کوئی مسئلہ نظر تو نہیں آتا کہ اس کا حل نہ نکل سکے معاملات مشکل ہیں اگر اس کو آسان لیا جائے تو وہ نہیں لے سکتے اس میں تھوڑا سا سب کو ون سٹیپ ڈائون کرنا پڑے گا تھوڑی سی اپنی انا کو کم کرنا پڑے گا اور ہم سب کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ہوگا اور صاف اور شفاف الیکشن سے جیت کر جو بھی جماعت آئے گی اس کو ہمیں قبول کرنا ہوگا۔