یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹااور دیگر اشیاء کا بحران،عوام بلبلا اُٹھے
شہریوں نے شکوہ کیا کہ ہم اپنے معمولات زندگی کو چھوڑکر سستی اشیا کے لیے لائنوں میں لگتے ہیں
لاہور(کھوج نیوز) عام کریانہ دکانوں پر آٹا گھی تیل دالیں مہنگی ہیں، سستی اور سبسڈائز اشیا کی خریداری کا اہم ذریعہ یوٹیلٹی اسٹورز ہیں جہاں خوراک کے حوالے سے سب سے اہم چیز آٹا ہے عام مارکیٹ کی نسبت یوٹیلٹی اسٹور پر آٹے کا 10 کلو والا تھیلا 648 روپے کا ہے جو غریب طبقے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
شہریوں نے شکایت کی ہے کہ گرمی کے موسم میں جہاں بیشتر یوٹیلٹی اسٹوروں کے باہر سائبان اور ٹھنڈا پانی دستیاب نہیں ہے، یوٹیلٹی اسٹوروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے پیدل یا کرایہ خرچ کرکے شہری جب وہاں پہنچتے ہیں اور شدید گرمی میں طویل قطاروں میں لگتے ہیں لیکن وہاں ان تکالیف کو برداشت کرنے کے باوجود آٹا اور دیگر سستی اشیا نہیں مل رہی ہیں۔
شہریوں نے شکوہ کیا کہ ہم اپنے معمولات زندگی کو چھوڑکر سستی اشیا کے لیے لائنوں میں لگتے ہیں تاکہ یہ سستی اشیا خرید کر اپنے اہل خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کرسکیں جب یہ اشیا نہیں ملیں گی تو حکومتی سبسڈی کا کیا فائدہ ہے ؟ شہریوں کی اکثر تعداد قطاروں میں دھکے کھانے سے بہتر کریانہ کی دکانوں سے خریداری کرنے کو مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت یوٹیلٹی اسٹوروں کی تعداد ملک کی آبادی کی ضروریات کے مطابق ناکافی ہے، یہ یوٹیلٹی اسٹورز ایک غیر حتمی انداز کے مطابق 2 فیصد یا اس سے زائد آبادی کو سہولت فراہم کرسکتے ہیں اس کا حتمی تعین کرنا بہت مشکل یے کیونکہ ان اسٹوروں پر زیادہ تر خریداری سسبڈائز اشیا کی ہوتی ہے ان یوٹیلٹی اسٹوروں کو یوسی سطح پر قائم کرنیکی ضرورت ہے تاکہ شہری گھر کے قریب سے سبسڈائز اشیائے خورونوش خریدسکیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت مہنگائی کی شرح 30 فیصد تک ہے، خصوصاً کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں مزید بڑھ رہی ہیں، یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد بڑھانا مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے،کھانے پینے کی بنیادی اشیا پر تمام ٹیکس ختم کیے جائیں، یوٹیلٹی اسٹورز کے نظام میں اصلاحات کی جائیں، کم آمدنی والے طبقے کی مدد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مزید سبسڈی دی جائے۔