پاکستان

’’تھا جس کا انتظار وہ شہکارآ گیا‘‘ تجزیہ کارعطا ءبڑا کھڑاک الحق قاسمی

ہر کسی کو لگا کہ ان کی سیاست ختم لیکن نواز شریف موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی خاص مسکراہٹ سے سب کو شکست دیکر ہر بار واپس آ جاتے ہیں

لاہور ( خصوصی رپورٹ ) ’’تھا جس کا انتظار وہ شہکارآ گیا‘‘۔۔۔آج نواز شریف کا دن ہے! ہر کسی کو لگا کہ ان کی سیاست ختم لیکن نواز شریف موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی خاص مسکراہٹ سے سب کو شکست دیکر ہر بار واپس آ جاتے ہیں.نواز شریف کے 3بار وزیر اعظم بننے سے لیکر اب تک "کہانی ” میں کیا کیا ٹوئیسٹ آیا ؟ سینئر تجزیہ کار عطا ء الحق قاسمی نے  اہم  تفصیلات شیئر کر دیں۔ اپنے بلاگ میں انہوں نے لکھا کہ  آج محمد نواز شریف ایک با رپھر ہمارے درمیان ہیں’’تھا جس کا انتظار وہ شہکارآ گیا‘‘۔ انہیں سیاست میں آئے4 دہائیاں ہو چکی ہیں ان4 دہائیوں میں بہت سی اونچ نیچ دیکھنا پڑی اور ہر کسی کو لگا کہ ان کی سیاست ختم لیکن نواز شریف موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی خاص مسکراہٹ سے سب کو شکست دیکر ہر بار واپس آ جاتے ہیں ،یہ ان کی خوش قسمتی ہے ۔

1993ءمیں جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنےاور ایک اسٹریٹجی سے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی تو دوسری بار قسمت نےپھر موقع دیا ،وزیر اعظم بنے لیکن اس بار جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے گھر بھیج دیئے گئے اور ان پر جہاز اغوا ءکرنے کا مقدمہ لگایا گیا نہ صرف حکومت گئی جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی اور لگا اب اس بار دنیا کی کوئی طاقت انہیں واپس سیاست میں نہیں لا سکتی لیکن 10ستمبر 2007ء کو جلاوطنی ختم ہوئی اور وہ پاکستان واپس لوٹے یہ الگ بات ہے کہ انہیں اسی وقت واپس جدہ بھیج دیا گیا۔

اپنے بلاگ میں عطاء الحق قاسمی نے لکھا کہ کہانی میں ایک بار پھر ٹوئسٹ (TWIST)آیا ، قسمت ان پر ایک بار پھر مہربان ہوئی اور 2012ء میں وہ تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے یہ اعزاز بھی نواز شریف ہی کو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے لونگسٹ سرونگ پرائم منسٹر LONGEST SERVING PRIME MINISTER رہے۔ اپنے3 ادوار میں برسوں سے زیادہ خدمات انجام دیں مگر نواز شریف کا امتحا ن یہیں ختم نہیں ہوا 2017میں جو ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور نہ ہی یہ زیادہ پرانی بات ہے ۔ پانامہ کا بہانہ بنا کر انہیں ایک بار پھر رخصت کیا گیا اور اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے جیل بھی کاٹی وہ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ جو کسی بھی باپ کیلئے آسان نہیں ۔نواز شریف نے ان تمام حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا خصوصاً جب وہ بیگم کلثوم نوازکو بستر مرگ پرچھوڑ کر اپنی بیٹی مریم کے ساتھ وطن واپس آئے اور جیل گئے، اس پر ہر درد دل رکھنے والا انسان دل گرفتہ ہوا ،انہیں صرف جیل ہی کی سختیاں برداشت نہیں کرنی پڑیں بلکہ عمران خان  کا بھی مقابلہ کرنا پڑا!جیل میں تمام تکالیف برداشت کرتے کرتے وہ بیمار سے بیمارتر ہوتے چلے گئے مگر ملک سے باہر جانے کا نام نہیں لیا ۔حتیٰ کہ ان کے دشمنوں کو یہ ڈر لگنے لگا کہ اگر ان کو جیل میں کچھ ہو گیا تو قوم انہیں معاف نہیں کرے گی چنانچہ انہیں ملک سے باہر جانے پر رضامند کیا گیا .

عمران خان کو لگا کہ انہوں نے اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگا دیا اور وہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے لہٰذا اب وہ من مانی کرسکیں گے ۔خان صاحب کو ماحول بھی اس قسم کا مہیا کیا گیا یعنی’ گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے 2022ءمیں خان صاحب کی حکومت کو بھی گھر جانا پڑا اور پھر 14جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی ، اگرچہ یہ سارا دورانیہ بہت مشکل تھا اور ایسے میں جب لوگ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن )اب آخری سانسیں لے رہی ہے تو میاں صاحب ایک بار پھر دبئی سےپاکستان آ گئے اور عوام نے ان سےبہت سی امیدیں بھی وابستہ کرلی ہیں۔موجودہ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالا تر نہیں ۔

اپنے بلاگ کے آخر میں عطاء الحق قاسمی نے لکھا کہ مسلم لیگ ان دنوں بہت فعال ہو گئی ہے کاش وہ میاں صاحب کی آمد کے اعلان سے پہلےہی عوام سے اس طرح رابطے میں ہوتی جیسے آج نظر آتی ہے چلیں دیر آید درست آید مگر یہ بات اسے ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ پی ٹی آئی کے چاہنے والے خاصی بڑی تعداد میں ہیں اور سوشل میڈیا پر بہت ووکل بھی ہیں لہٰذا اپنے حریف کو ایزی نہیں لینا چاہئے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button