قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کیلئے سنی اتحاد کونسل اپیل پر سپریم کورٹ کا مختصر اکثریتی فیصلہ
سنی اتحاد کونسل ہار گئی اور پی ٹی آئی جس نے اپیل بھی دائر نہیں کی تھی جیت گئی' اکثریتی فیصلوں کے ذریعے آئین اور قانون دوباہ لکھنے کا سلسلہ جاری' فیصلہ نہیں ہوا جھگڑا شروع ہوا ہے' شوذب کنول جیت گئی حامد رضا ہار گئے !

تحریر : شکیلہ فاطمہ
سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل بینچ مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے خلاف سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کر رہا تھا جس کے آج مختصر اکثریتی اور اقلیتی فیصلے جاری کئے گئے ہیں۔ اکثریتی فیصلہ 8 ججز اور اقلیتی فیصلہ 5 ججوں کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔ اکثریتی فیصلے کے مطابق سنی اتحاد کونسل جو اپیل کنندہ تھی کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے اور ان کی طرف سے مانگی گئی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو الاٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اکثریتی فیصلے میں 39 ممبران کو پی ٹی آئی کے ممبران بنایا گیا اور41 ممبران سے 15 دن کے اندر ڈیکلریشن لیا جائے کہ وہ کس جماعت کا حصہ ہیں یا حصہ بننا چاہئیں گے۔ اور پھر اس کے 7 دن کے اندر الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستیں الاٹ کرے۔ واضح رہے الیکشن کمیشن پہلے ہی تین رکنی بینچ کے ابتدائی فیصلے کے مطابق ڈی نوٹیفائی کر چکا ہے۔ اس وقت وہ اضافی ممبران اسمبلیوں کا حصہ نہیں ہیں۔ اس معاملے کی شروعات وقت ہوئی جب تحریک انصاف سے اسکا انتخابی نشان بلا واپس لے لیا گیا اور نتیجے کے طور پر اس کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا پڑا۔ بعد ازاں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ جیتنے والے ممبران تحریک انصاف کی بجائے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے۔ حالانکہ اس وقت سنی اتحاد کونسل اور تحریک انصاف دونوں کا سٹیس ایک جیسا تھا۔ اور دونوں پارٹیوں نے بطور سیاسی جماعت کسی ایک مشترکہ انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑا تھا اور دونوں پارلیمانی پارٹی کی تعریف پر پوری نہیں اترتی تھی۔ اب اکثریتی فیصلہ چونکہ سپریم کورٹ کا ہے اس لئے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے والے ججز کے بارے کوئی رائے زنی کرنا غیر مناسب ہوگا تاہم مخصوص نشستوں سے متعلق مختصر فیصلے کے قانونی نقاط پر بات ہو سکتی ہے اور اس فیصلے پر بحث ہوتی رہے گی۔ اس مختصر فیصلے کے اب تک کے اہم نکات کا جائزہ لیں تو انتہائی سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں سب سے اہم یہ کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے ایک اکثریتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کو دوبارہ لکھا اور اب آرٹیکل 51 اور 106 کو دوبارہ لکھا گیا ہے۔ آئین کے ان آرٹیکلز کے علاوہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی سیکشن 104 اور سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کرنے سے متعلق سیکشنز بھی دوبارہ لکھی گئی ہیں۔ یہ بھی قرار پایا کہ اگر اپیل زید کرے تو ریلیف زید کی بجائے بکر کو مل سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے اب الیکشن لڑنے کیلئے کسی کامن انتخابی نشان الاٹ کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جیتے والے ممبران کو جیتنے کے بعد سپریم کورٹ کسی بھی جماعت کے ممبران قرار دے سکتی ہے اور باقی پندرہ دن میں ڈیکلریشن دے کر اپنی جماعتی وابستگی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن محض ایک مشین کے طور پر کام کرے گا۔ اسکو بطور آئینی ادارہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے آئین اور قانون کا عملدرآمد کرانا غیر ضروری ہوگا۔ اگر سپریم کورٹ کسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے لے اور الیکشن کمیشن اس پر عمل کرتے ہوئے وہ نشان بطور جماعت کسی سیاسی پارٹی کو نہ دے تو اسکو فیصلے کی غلط تشریح مانا جائے گا۔ اور یہ کہ مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن سے پہلے الیکشن ایکٹ کے مطابق پارٹی لسٹ دینا ضروری نہیں ہوگا۔ اس مختصر اکثریتی فیصلے کو 63 اے کے اکثریتی فیصلے کا تسلسل سمجھا جائے گا اور سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز کو حق حاصل ہے کہ آئین ، قانون اور قواعد و ضوابط کی تشریح کی بجائے اپنی مرضی سے دوبارہ لکھیں اور اس پر عمل درآمد کروائیں۔ بصورت دیگر توہین عدالت ہوگی۔ اس تمام تر صوتحال میں پارلیمنٹ ایک بے وقعت اور الیکشن کمیشن عضو معطل ہو چکے ہیں۔ ان اکثریتی فیصلوں سے ہمارے عدالتی نظام پر سنجیدہ سوال کھڑے ہو چکے ہیں۔ پارلیمنٹ اور دیگر آئینی ادارے بھی عملی طور پر بے اثر ہو چکے ہیں یہ جوڈیشل ایکٹوزم کی انتہائی شکل دکھائی دیتی ہے جس کی قیمت قوم کو بھگتنا پڑے گی۔ بگاڑ مزید بڑھے گا انائیں ٹکرائیں گی ادارے بے وقعت ہو جائیں گے اور معاشرے میں انحطاط زور پکڑے گا۔ معیشت مزید کمزور ہوگی امیر مزید لوٹیں گے غریب زندگی سے بیزار ہونگے سفید پوش طبقہ اب غریبوں کی لسٹ شامل ہوگا۔ دنیا میں ہمارے عدالتی، سیاسی اور انتظامی امور ناقابل اعتبار سمجھے جائیں گے۔ اور آخرکار ہمیں جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری نظام کو بدلنا ہوگا اور عدل کے نام پر ظالمانہ اور سیاست زدہ نظام کو بدلنا ہوگا۔ معاشرے کی تربیت کرنا ہوگا لوگوں کو اچھے اور برے میں تمیز بتانا ہوگا۔ بوسیدہ نظام انتخابات کو بدلنا ہوگا ۔ مزید تفصیلی فیصلہ جات جاری ہونے کے بعد بات کی جا سکتی ہے کہ یہ اکثریتی فیصلہ کیا کیا کرے گا۔