صحت

مانع حمل طریقےاستعمال کرنےوالی خواتین کی تعداد دوگنا بڑھ گئی

۔ اقوام متحدہ کے اداروں کےمطابق لڑکیوں اورخواتین کےجنسی و تولیدی حقوق یقینی بنانے کےمعاملےمیں گزشتہ 3 دہائیوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے

نیو یارک(کھوج صحت)مانع حمل طریقےاستعمال کرنےوالی خواتین کی تعداد دوگنا بڑھ گئی۔ اقوام متحدہ کے اداروں کےمطابق لڑکیوں اورخواتین کےجنسی و تولیدی حقوق یقینی بنانے کےمعاملےمیں گزشتہ 3 دہائیوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ 1990 کےبعد جدید مانع حمل طریقےاستعمال کرنےوالی خواتین کی تعداد دوگنا بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کےان اداروں کےمطابق 2000 کےبعد زچہ کی شرح اموات میں 34 فیصد تک کمی آئی ہے۔ 2022 تک ایچ آئی وی کےعلاج کی بدولت دنیا بھرمیں 20.8 ملین اموات کو روکا گیا۔

تاہم حالیہ عرصہ میں یہ پیش رفت تھم گئی ہےاوربعض ممالک اورخطوں میں صورتحال پہلےسےبھی زیادہ خراب دکھائی دیتی ہے۔ کووڈ۔19 وبا کے اثرات، بڑھتے ہوئےمسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی، عدم مساوات میں اضافےاورگہری ہوتی ارضی سیاسی تقسیم کےباعث معیاری اورضروری طبی خدمات تک رسائی بھی متاثر ہورہی ہے۔

بیان میں کہاگیا ہےکہ یہ ناکامیاں بہتری کی جانب فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان مسائل سے خواتین اورلڑکیاں غیرمتناسب طورپرمتاثرہورہی ہیں۔ یہ ان کےآگاہی پرمبنی فیصلوں اور جبر کےبغیراپنےمکمل جسمانی اختیارسےکام لینےکی راہ میں رکاوٹ ہیں جوکہ بنیادی انسانی حق ہے۔

انسانی حقوق کی بنیاد پرجنسی و تولیدی صحت کی خدمات اورمعلومات تک مساوی و پائیداررسائی بہت سی خواتین کی پہنچ سےدور ہے۔ ان میں خاص طور پر غریب خواتین اور بحران و جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والی بالغ لڑکیاں شامل ہیں۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق تولیدی عمر میں نصف سے زیادہ خواتین کو حمل سے متعلق فیصلوں میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔

اداروں نے حکومتوں، عطیہ دہندگان، سول سوسائٹی اور نجی شعبے پر زور دیا ہے کہ وہ جنسی و تولیدی صحت کی خدمات کے جامع پیکیج تک رسائی کو بہتر بنائیں۔ یہ خدمات بنیادی مراکز صحت کی سطح پر بھی دستیاب ہونی چاہییں۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے نوجوانوں، خواتین اور دیگر لوگوں کی جانب سے جنسی و تولیدی صحت سے متعلق خدشات پر بات کرنے کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی حمایت بھی کی ہے۔

انہوں نے سرکاری و نجی شعبے پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیلی میڈیسن اور مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کو مزید وسعت دیں تاکہ خاص طور پر دور دراز اور غریب علاقوں میں بنیادی طبی خدمات تک رسائی کو بہتر بنایا جا سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button