قیادت میں شدید اختلافات، ایم کیوایم کے سیاسی مستقبل پرسوال اُٹھنے لگے
صدیقی، ستار،کمال پرمشتمل تین گروہ بظاہرتو مل گئےمگر سائنس کی اصطلاع میں یہ عناصرکیمیکل بانڈ نہیں بناسکے

کراچی(کھوج نیوز)متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بطور سیاسی جماعت کئی برسوں سے وینٹی لیٹر پر ہے، لائف سپورٹ نے اس میں زندگی کی رمق تو قائم رکھی ہے مگر اب اس کے اعضا گلنا سڑنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن رہے ہیں۔لوگ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ سندھ کے شہری علاقوں میں اگر ایم کیوایم کا وجود برقرار رہے گا تو تحریک کی قیادت کسے سنبھالنی چاہیے اور یہ بھی کہ اس کا نظریہ اور سمت کیا ہو؟ایم کیوایم کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی ہوں، سینیئر پارٹی رہنما ڈاکٹرفاروق ستار یا مصطفی کمال، انہیں ساتھ بٹھا کر سانجھے کی ہنڈیا پکا تو لی گئی تھی مگر اہم ذرائع نے بتایا کہ یہ ہنڈیا چوراہے پر پھوٹنے والی ہے۔
مصطفی کمال، خالد مقبول صدیقی کےطرزسیاست سےنالاں ہیں اور پارٹی قیادت سنبھالنا چاہتےہیں۔ اختلافات اس قدرشدت اختیارکرچکےہیں کہ مصطفی کمال نےبہادر آباد مرکز آنےسےبھی گریزکرنا شروع کردیا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستارچونکہ سینیئرترین رہنماں میں سے ایک ہیں، خواہش ان کی بھی یہی ہےکہ پارٹی قیادت وہ سنبھالیں، یہ الگ بات ہےکہ کارکنوں، لیڈروں اور قائدین میں دانشمندی کا جو فرق ہوتا ہے، وہ معلوم سب کوہے، ماننےکو تیارکوئی نہیں۔یہ بھی درست ہے کہ اگرخالد مقبول صدیقی نےپارٹی قیادت کےساتھ وفاقی وزارت بھی خود ہی نہ سنبھال لی ہوتی تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی۔
تحریک کے ایک رہنما کے بقول ‘ایم کیوایم کو آئینی لحاظ سے دیکھیں تو اس وقت اس کا کوئی سربراہ نہیں۔ خالد مقبول صدیقی آئینی طورپرکنوینرتھے مگر انہوں نےخود کو غیرقانونی طور پرچیئرمین بناکراپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارلی ہے اورخود کو کنوینرشپ سے بھی محروم کردیا ہے۔پارٹی کے نام پرنظرڈالیں تو متحدہ قومی موومنٹ تین الفاظ پرمشتمل سیاسی جماعت ہے، صدیقی، ستار،کمال پرمشتمل تین گروہ بظاہرتو مل گئےمگر سائنس کی اصطلاع میں یہ عناصرکیمیکل بانڈ نہیں بناسکے۔تحریک کے ایک زیرک رہنما کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیےتھا کہ خالد مقبول صدیقی پارٹی صرف چئیرمین شپ ہی سبنھالتے تاکہ اتحاد میں شامل ہونے کےبعد حکومت، اسٹیبلشمنٹ اورسفارتی وفود سےملاقاتیں اور معاملات طے کرتے، عوامی سطح پرپارٹی منظم کرکے نئی روح پھونکتے۔
یہ بھی کہ صدیقی صاحب ناک سے آگے نہ دیکھنے کے بجائے وزیراعظم شہبازشریف سے ایسی ڈیل کرتے جو ایم کیوایم کیلئے سود مند ہوتی۔ ایک وفاقی وزارت لینے کےبجائے دو وزارتوں یا ایک وزارت، ایک مشیر کا فارمولہ طے کراتے۔ اسطرح مصطفی کمال اورفاروق ستارکو وزیراورمشیر بنا کر پارٹی میں موجود کوویلنٹ بانڈ کو آئینی بانڈ میں بدل دیاجاتا۔پیپلزپارٹی کےایک رہنما کے نزدیک چونکہ ایم کیوایم کا وجود جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں گوندھی گئی مٹی سے بنا ہے، اس لیے ایم کیوایم رہنما صرف دو کام کرسکتے ہیں۔ایک یہ کہ الطاف حسین کی طرح پارٹی قائد بنیں جو بڑے سے بڑے لیڈرکو مجمع کےسامنےعام کارکن سےجوتے پڑوا کراپنا زور قائم رکھےیا ساری ٹوپیاں خود پہن لےتاکہ اختیارات چھن جانےکا خطرہ سرپرمنڈلانے سے ٹلا رہے۔
اس ناقص حکمت عملی نے تحریک کو مزید انتشارسے دوچارکیا ہے۔نوبت یہ ہے کہ ایم کیوایم محض چند شخصیات کی جماعت بن کررہ گئی ہے۔آپ عزیزآباد سمیت کراچی کی اکثریتی مہاجر آبادی والے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں اورعوام سے پوچھیں کہ ایم کیوایم کے قومی و صوبائی اراکین کون ہیں تو وہ بمشکل چار سے پانچ افراد کا نام لے پائے گا۔اک دور تھا کہ الطاف حسین کے ساتھ عظیم احمد طارق، ڈاکٹرعمران فاروق، آفاق احمد، عامر خان، فاروق ستار، ڈاکٹرعشرت العباد، بابرغوری، وسیم اختر،حیدرعباس رضوی، امین الحق اور انیس قائم خانی ہی نہیں درجنوں نام ہر چلتا پھرتا شخص گنواسکتا تھا۔چند ہی برسوں میں وہ دور بھی آیا کہ پڑھے لکھے نچلے اور متوسط طبقے کی جماعت ایم کیوایم کا نام ہڑتالی ٹولے، بھتہ مافیا، بوری بند متشدد گروہ اور ٹارگٹ کلرزکے طور پر لیا جانے لگا۔ ایم کیوایم میں شامل ہونے کے مطلب لائسنس ٹو بدمعاشی سمجھا جانے لگا۔ لڑکا ایم کیوایم میں ہے کہ مطلب سب واضح تھا۔
آج کی ایم کیوایم نہ تو ابتدا میں مہاجرقومی موومنٹ کے نام سے بنی وہ جماعت ہے جو بعد میں متحدہ قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں تبدیل ہوئی جنہیں سابقہ الیکشن میں امیدواروں کو ملے اصل ووٹ معلوم ہیں، وہ واقفان حال جانتے ہیں کہ یہ پارٹی بیساکھیوں پر نہیں، چھڑیوں پر کھڑی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایم کیوایم کا مستقبل کیا ہے؟ کیا اگلے انتخابات تک یہ منشتر جماعت رہی سہی قدر بھی کھودے گی اور اس طرح سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈیٹ پی ٹی آئی، پاکستان پیپلزپارٹی اور مذہبی جماعتوں میں بٹ جائے گا؟بظاہر اسی صورتحال کا فائدہ سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹرعشرت العباد اٹھانا چاہتے ہیں جو پچھلے چھ ماہ کے دوران سیاسی طور پر دوبارہ متحرک ہوئے ہیں۔
ڈاکٹرعباد نے میری پہچان پاکستان کے پلیٹ فارم سے کراچی اورحیدرآباد ہی نہیں پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت و بلتستان میں بھی چھوٹے پیمانے پر ہی سہی تقریبات اورریلیاں نکالنا شروع کی ہیں۔یہ الگ بات کہ تاحال کسی بڑی سیاسی شخصیت نے ڈاکٹرعشرت العباد کو جوائن کرنے کا عوامی سطح پر اعلان نہیں کیا۔شاید ہواں کا رخ دیکھنے کی وجہ ہے کہ باربار کہنے کے باوجود ڈاکٹرعشرت العباد نے وطن واپسی کی تاریخ بھی نہیں دی ہے۔