سائنسدانوں کی حیرت انگیز دریافت ،سیوریج کے گارے سے گاڑیاں چلانے کا منصوبہ
دنیا بھر میں توانائی کے بحران اور بڑھتی ہوئی آلودگی کے پیش نظر، سائنسدانوں کی نظریں متبادل توانائی کے ذرائع پر مرکوز ہیں

سنگاپور(مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا بھر میں توانائی کے بحران اور بڑھتی ہوئی آلودگی کے پیش نظر، سائنسدانوں کی نظریں متبادل توانائی کے ذرائع پر مرکوز ہیں۔ اس ضمن میں حالیہ دنوں میں سنگاپور کے ماہرین نے ایک حیرت انگیز تحقیق پیش کی ہے، جس میں سیوریج کے گارے کو قابلِ استعمال ایندھن میں تبدیل کرکے گاڑیوں کو چلانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ یہ دریافت نہ صرف توانائی کے نئے دروازے کھول سکتی ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔
تحقیق کا پس منظر:
دنیا کے بڑے شہروں میں سیوریج کے نظام سے روزانہ لاکھوں ٹن گارا نکلتا ہے، جو عام طور پر ندی نالوں، دریاوں یا سمندروں میں بہا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کئی ممالک اس گارے کو خشک کرکے کھاد میں تبدیل کرتے ہیں، لیکن اس کے بڑے پیمانے پر ذخیرے اور استعمال کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں تھا۔سائنسدانوں نے اسی مسئلے کو ایک موقع میں بدلنے کا سوچا اور تحقیق کا آغاز کیا کہ آیا اس گارے سے کسی طرح توانائی حاصل کی جا سکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے جدید بایو کیمیکل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور حیران کن طور پر گارے کو بایو فیول میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سیوریج کے گارے سے ایندھن حاصل کرنے کا عمل:
یہ طریقہ بایو گیس ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، جس میں درج ذیل مراحل شامل ہیں:
گارے کی صفائی اور علیحدگی:
سب سے پہلے سیوریج کے گارے سے غیر ضروری اجزا اور بھاری دھاتوں کو علیحدہ کیا جاتا ہے تاکہ اس کی کیمیائی ساخت کو مستحکم بنایا جا سکے۔
بیکٹیریا کے ذریعے تحلیل:
مخصوص قسم کے بیکٹیریا اس گارے پر عمل کرتے ہیں اور اسے میتھین اور ہائیڈروجن جیسے گیسوں میں تبدیل کرتے ہیں، جو توانائی کے بنیادی ذرائع ہیں۔
بایو گیس کی تیاری:
حاصل شدہ میتھین گیس کو مزید فلٹر کیا جاتا ہے اور پھر اسے مخصوص کیمیکل پروسیس کے ذریعے گاڑیوں کے انجن میں استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔
ایندھن کی صفائی اور ذخیرہ:
اس بایو گیس کو صاف کرنے کے بعد مخصوص ٹینکوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے اور پھر گاڑیوں میں بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔
اس ایندھن کے فوائد:
یہ نئی ٹیکنالوجی کئی وجوہات کی بنا پر انتہائی مثر ثابت ہو سکتی ہے:
متبادل توانائی کا ذریعہ:
یہ دریافت دنیا کو بایو فیول کی ایک سستی اور ماحول دوست شکل مہیا کر سکتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی میں کمی:
سیوریج کے گارے کو ایندھن میں بدلنے سے گندے پانی کے ذخائر میں کمی آئے گی اور آبی آلودگی کم ہوگی۔
کم خرچ اور قابلِ تجدید توانائی:
بایو گیس کا حصول روایتی پٹرول اور ڈیزل کے مقابلے میں زیادہ سستا ہے اور اسے بار بار پیدا کیا جا سکتا ہے۔
شہری سیوریج کے مسئلے کا حل:
اگر یہ طریقہ بڑے پیمانے پر اپنایا جائے تو شہروں کے سیوریج کے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔
مستقبل کے امکانات:
یہ ٹیکنالوجی ابھی تجرباتی مراحل میں ہے، لیکن ابتدائی تجربات کے حوصلہ افزا نتائج نے دنیا بھر کے سائنسدانوں اور ماحولیاتی ماہرین کو اس کی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک جیسے کہ جرمنی، سویڈن اور جاپان میں بھی اس تحقیق پر کام شروع کر دیا گیا ہے تاکہ اسے تجارتی سطح پر متعارف کرایا جا سکے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر حکومتیں اس منصوبے پر توجہ دیں تو آئندہ 10 سے 15 سالوں میں یہ ایندھن عام ہو سکتا ہے، جو پٹرول اور ڈیزل کا ایک بہترین متبادل ثابت ہوگا۔
سیوریج کے گارے سے بایو گیس بنا کر گاڑیاں چلانے کی دریافت دنیا کے توانائی بحران اور ماحولیاتی آلودگی جیسے بڑے مسائل کا حل بن سکتی ہے۔ اگر اس پر مزید تحقیق اور سرمایہ کاری کی جائے تو یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں دنیا کے لیے ایک انقلابی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔یہ صرف ایک نظریاتی منصوبہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس کے مثبت اثرات دنیا پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک اس پر کام کریں اور ترقی پذیر ممالک بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنائیں تو دنیا ایک صاف، سبز اور پائیدار توانائی کے دور میں داخل ہوسکتی ہے۔