نوازشریف سیاسی میدان میں دوبارہ متحرک، مخالفین بھی حیران
میاں نواز شریف سیاسی میدان میں دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں، جس پر نہ صرف ان کے حمایتی بلکہ مخالفین بھی حیران ہیں

لاہور(کھوج نیوز)سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سیاسی میدان میں دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں، جس پر نہ صرف ان کے حمایتی بلکہ مخالفین بھی حیران ہیں۔ آج انھوں نے ایک بھرپور اور مصروف دن گزارا، جس میں انہوں نے مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور اہم فیصلے کیے۔
میاں نواز شریف کی سب سے اہم ملاقات عبدالمک بلوچ سے ہوئی، جس میں انھوں نے انہیں ٹاسک دیا کہ وہ اختر مینگل بلوچ سے بات کریں اور بلوچستان کے مسائل کے سیاسی حل کے لیے کوششیں کریں۔ نواز شریف نے اس ملاقات میں واضح کیا کہ بلوچستان کے عوام کے مسائل کا حل صرف سیاسی طریقے سے ہی ممکن ہے، اور انہوں نے عبدالمک بلوچ سے کہا کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں اور معاملات کو مثبت سمت میں لانے کی بھرپور کوشش کریں۔
اس ملاقات میں، میاں نواز شریف نے ماہ رنگ بلوچ کے حوالے سے کسی بھی گفتگو سے اجتناب کیا، اور اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان میں موجود دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے سیاسی بات چیت ضروری ہے تاکہ وہاں کے عوام کی تکالیف دور کی جا سکیں اور خطے میں امن قائم ہو۔
اس کے علاوہ، میاں نواز شریف نے مختلف دیگر سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر اویس لغاری شامل تھے، جنہیں نواز شریف نے بجلی کی قیمتوں میں کمی پر مبارکباد دی اور مزید کمی کرنے کی درخواست کی۔ اویس لغاری نے نواز شریف کی اس تجویز کو سراہا اور اس پر مثبت ردعمل دیا۔
اس کے ساتھ ہی میاں نواز شریف نے خواجہ آصف، پرویز رشید اور دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں، جن میں ملکی سیاسی صورتحال، معیشت اور آئندہ کی حکمت عملی پر گفتگو کی گئی۔ ان ملاقاتوں کا مقصد اپنے اتحادیوں کے ساتھ رابطے مضبوط کرنا اور اہم سیاسی فیصلوں پر مشاورت کرنا تھا۔میاں نواز شریف کے اس سیاسی متحرک کردار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں فعال طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر مستقبل کی سیاسی حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس دوران، یہ بھی خبر آئی ہے کہ میاں نواز شریف اگلے دو سے تین دنوں میں لندن روانہ ہوں گے، جہاں وہ اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ نجی دورے پر جائیں گے۔ لندن کا یہ دورہ میاں نواز شریف کے لیے ایک ذاتی نوعیت کا سفر ہوگا، لیکن ان کی سیاسی سرگرمیاں اور مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا، جو آئندہ کے سیاسی منظرنامے میں اہم تبدیلیاںلاسکتاہے۔