ایٹمی جنگ کے دہانے پر دنیا؟ نئی ایٹمی طاقتوں کا ابھار اور عالمی سلامتی کو لاحق شدید خطرات
دنیا ایک نئے ایٹمی دور میں داخل ہو چکی ہے، اور ایٹمی پھیلاؤ (Horizontal Proliferation) اس دور کا سب سے خطرناک مسئلہ بنتا جا رہا ہے

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا ایک نئے ایٹمی دور میں داخل ہو چکی ہے، اور ایٹمی پھیلاؤ (Horizontal Proliferation) اس دور کا سب سے خطرناک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، اور عالمی جغرافیائی سیاست میں گہرے عدم استحکام نے علاقائی ممالک کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ایک بار پھر پرکشش بنا دیا ہے۔
ایشیا میں ایٹمی کشیدگی کا نیا محاذ:
ایشیائی خطہ خاص طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ چین کی شمالی کوریا کے ساتھ بڑھتی عسکری و معاشی قربت نے جاپان اور جنوبی کوریا میں خطرات کے احساس کو بڑھا دیا ہے۔2023 میں جاپان نے دفاعی اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا۔ جنوبی کوریا میں بھی ایٹمی پروگرام کو عوام نے سراہا۔ یہ دونوں ممالک "چھپی ہوئی ایٹمی طاقتیں” ہیں، یعنی ان کے پاس وہ تمام تکنیکی صلاحیتیں موجود ہیں جو ایک ملک کو نیوکلیئر پروگرام کے استعماکے قابل بناتی ہیں۔ صرف سیاسی عزم کی کمی ہے، ورنہ یہ چند مہینوں میں ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں۔
جنوبی ایشیا: پاکستان اور بھارت کے درمیان بار بار بھڑکتی ایٹمی چنگاری:
پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی ہر وقت ایٹمی تصادم کا خطرہ رہتا ہے ابھی حالیہ پہلگام حملے کے بعد یہ معاملہ ایک دفعہ پھر سامنے آیا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی تصادم کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔
یورپ میں بھی ایٹمی جنگ کے بادل:
یورپ کی صورتحال بھی خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے، جہاں یوکرین جنگ جاری ہے۔ یورپی یونین جو ہمیشہ اسلحہ کنٹرول کا حامی رہا ہے، اب خود ایٹمی دوڑ کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ پولینڈ کے وزیراعظم ڈونلڈ ٹسک نے ایٹمی ہتھیاروں کی میزبانی یا حصول کی خواہش ظاہر کی ہے۔ مارچ میں ان کا بیان تھا:ہمیں علم ہونا چاہیے کہ پولینڈ کو جدید ترین، حتی کہ ایٹمی اور غیر روایتی ہتھیاروں کی طرف بڑھنا ہوگا یہ جنگ نہیں بلکہ سلامتی کی دوڑ ہے۔ اس وقت روس اور پولینڈ کے درمیان کشیدگی کاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں ممالک میں جنگ ہو سکتی ہے۔
عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ: نئی ایٹمی ریاستوں کا ابھار:
ایٹمی ہتھیاروں کی نئی ریاستوں کا ظہور عالمی امن کے لیے سب سے مہلک خطرہ بن چکا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہی امریکی قیادت میں قائم عالمی سیکیورٹی نظام کو کمزور کیا ہے۔ اگرچہ اس سے پالیسی پلٹنا مشکل ہوگا، مگر اسلحہ کنٹرول کے نظام کی بحالی ایک ایسا قدم ہے جو نہ صرف صدر ٹرمپ کی عالمی مقبولیت میں اضافہ کر سکتا ہے، بلکہ انہیں "امن کے سفیر” کے طور پر بھی پیش کر سکتا ہے۔ یہ اقدام امریکہ کی جنگی چال کو مضبوط بنانے کا بہترین موقع ہے۔
دنیا اس وقت ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اگر فوری اور جامع اسلحہ کنٹرول معاہدے نہ کیے گئے تو نئی ایٹمی طاقتوں کی دوڑ ایک عالمی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔