انٹرنیشنل

اترپردیش میں عبرتناک شکست، کیا مودی نے ہندو توا کی سیاست سے توبہ کرلی؟

مودی حکومت کے سامنے بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں ہم آہنگی پیدا کرنا بھی ایک چیلنج ہے

نیو دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک) اتر پردیش میں عبرتناک شکست کے بعد کیا تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے والے بھارتی وزیراعظم مودی نے ہندو توا کی سیاست سے توبہ کرلی ہے؟

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی مخلوط حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج مضبوط اپوزیشن کا ہونا بھی ہے۔ 2014ء اور 2019ء کے انتخابات کے بعد پارلیمان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی۔ لیکن اس بار ان کی تعداد 232 ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حزب اختلاف کے یہ ارکان حکومت کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کا بھی امکان کم ہے کہ گزشتہ پارلیمان کی طرح حکومت اپنی پسند کا بل لا کر منظور کرا لے۔ اب کوئی بھی بل ایوان میں بحث کے بغیر منظور نہیں ہو سکے گا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ابھی ہنی مون پیریڈ ہے۔ آگے چل کر رکاوٹیں آئیں گی۔ نریندر مودی اپنی مرضی سے حکومت چلانے کے عادی ہیں۔ وہ کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ لہذا آگے چل کر حلیفوں سے ٹکرا ہو سکتا ہے۔ اس کا مشاہدہ حلف برداری کے دن ہی ہو گیا۔ مہاراشٹر میں مخلوط حکومت میں شامل اجیت پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) نے مرکزی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا تھا کہ سابقہ حکومت میں اس کا ایک کابینہ وزیر تھا۔ اس بار بھی کابینہ وزیر ہونا چاہیے۔ جب کہ مودی حکومت اس کو وزیر مملکت کا عہدے دے رہی تھی۔ اجیت پوار نے کہا ہے کہ ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت کے سامنے بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں ہم آہنگی پیدا کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسی خبریں آتی رہی ہیں کہ دونوں میں معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس حوالے سے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کا یہ بیان کافی وائرل ہوا تھا کہ اب بی جے پی کافی طاقت ور ہو گئی ہے اور اسے آر ایس ایس کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس بیان کو دونوں میں اختلافات کے طور پر دیکھا گیا۔ آر ایس ایس میں اس بیان کو پسند نہیں کیا گیا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آر ایس ایس آگے چل کر کوئی نہ کوئی قدم اٹھائے گی۔ لہذا مودی کے سامنے آر ایس ایس اور بی جے پی میں تال میل بٹھانا بھی ایک چیلنج ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button