بھارت کے متنازع انتخابات،اپوزیشن کی جانب سے تمام ایگزٹ پول جعلی قرار،بدترین فسادات کا خطرہ
کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے بڑا دعویٰ کیا۔ انہوں نے 295 نشستیں جیتنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”یہ ایگزٹ پول نہیں ہے، یہ مودی کا میڈیا پول ہے
نیو دہلی(ویب ڈیسک)بھارت کے متنازع انتخابات،اپوزیشن کی جانب سے تمام ایگزٹ پول جعلی قرار،بدترین فسادات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے،رپورٹس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت “ کے دعویدارملک بھارت میں انتخابی نتائج سے قبل ایگزٹ پول نے کئی بڑے سوالات اٹھا دیئے۔ بھارتی انتخابات کے حوالے سے جو سوالات کئے جارہے ہیں ان کے ممطابق پوچھا گیا ہےکہ ایگزٹ پول کا فارمولا کیا ہوتا ہے ؟ کیا ایگزٹ پول کرنیوالی کمپنیاں ”ٹھیکے “ نہیں لیتیں ، انتخابی مہم نہیں چلاتیں ، عوامی رائے عامہ پراثرانداز ہونےکیلئےکام نہیں کرتیں ؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو ہرانا آسان نہیں ، لیکن ناممکن بھی نہیں اور اگریہ ممکن ہونے جا رہا ہے تو اتنی آسانی سے تونہیں ہونے دیا جائیگا ۔۔؟ کیا بھارت میں اپوزیشن جماعتیں ایگزٹ پول والے انتخابی نتائج آسانی سے تسلیم کر لیں گی؟
کیا وہاں بھی انتخابات کے بعد پاکستان جیسا سیاسی ماحول بننے جا رہا ہے ؟ جیلیں آباد ہونے جا رہی ہیں ۔۔۔؟
کہیں بڑا ملک بڑے مسائل میں الجھنے تو نہیں جا رہا ۔۔۔؟ سینئر بھارتی صحافی رویش کمار نے ایگزٹ پو ل کا ”EXIT POLL“ کر دیا ، انہوں نے سوشل میڈیا پر ایگزٹ پول کی ساری ”پول“ کھول دی ۔ یہاں ان کے تبصروں کی تفصیلات تو پیش نہیں کی جا سکتیں لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ غیر جانبدارصحافی بھی ایگزٹ پول سے مطمئن نہیں اور تحفظات رکھتے ہیں ۔
دہلی کےوزیراعلیٰ اورعام آدمی پارٹی کےسربراہ اروند کیجریوال بھی ایگزٹ پول سے خوش نہیں انہوں نے ایک میٹنگ میں مسکراتے ہوئے کہا کہ انتخابی نتائج ایگزٹ پول سے بالکل مختلف ہونگے ، انہوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ” بی جے پی کو خوش کرنیوالوں نے تو تمام حدیں ہی پار کر ڈالیں راجستھان میں اگر 25نشستیں ہیں تو ایگزٹ پول والوں نے 25میں سے 33نشستیں بی جے پی کو دے ڈالیں “ ۔
اپوزیشن نے لوک سبھا انتخابات کے ایگزٹ پولز پر سوالات اٹھائے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں 4 جون کو مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے۔ کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے بڑا دعویٰ کیا۔ انہوں نے 295 نشستیں جیتنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”یہ ایگزٹ پول نہیں ہے، یہ مودی کا میڈیا پول ہے۔ یہ ان کا خیالی سروے ہے۔کیا آپ نے سدھو موسے والا کا گانا 295 سنا ہے؟ ہم 295 سیٹیں جیتیں گے“۔
کانگریس ایگزٹ پول کو جعلی قرار دے چکی ہے ۔
کانگریس کے لیڈر جے رام رمیش کے مطابق ”ایگزٹ پول مکمل طور پر فرضی ہے۔ صرف 4 جون کو باہر نکلنے والے لوگوں نے ہی یہ ایگزٹ پول جاری کیے ہیں۔انڈیااتحاد کو کم از کم 295 نشستیں ملنے والی ہیں۔ یہ صرف موجودہ وزیراعظم اور موجودہ وزیر داخلہ کا نفسیاتی کھیل ہے۔ وہ ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ہمارا اعتماد ٹوٹ جائے۔ ایسا نہیں ہوگا“۔ ایگزٹ پول پرکانگریس کے جنرل سکریٹری وینوگوپال کہتے ہیں”ہم نے اپنے پی سی سی صدور، سی ایم، انچارجز اور امیدواروں سے بات چیت کی ہے، وہ سب بہت پر اعتماد ہیں۔ یہ ایگزٹ پول حکومت کے لیے ایک جعلی پول ہے“۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بھی ایگزٹ پول پر سوال اٹھائے ہیں۔ اکھلیش یادو نے ایگزٹ پول کی تاریخ بھی بتائی ۔ ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ بی جے پی میڈیا ،بی جے پی کو 300 سے آگے دکھائے گا جس سے دھوکہ دہی کی گنجائش پیدا ہوگی۔ آج کا بی جے پی کا ایگزٹ پول کئی مہینے پہلے تیار کیا گیا تھا اور اسے صرف چینلز نے چلایا ،اس ایگزٹ پول کے ذریعے رائے عامہ کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ اس ایگزٹ پول کو بنیاد کے طور پر لیتے ہوئے، بی جے پی سٹاک مارکیٹ کھلنے سے فوری منافع لینا چاہتی ہے۔ اگر یہ ایگزٹ پول جھوٹے نہ ہوتے اور بی جے پی واقعی ہار نہیں رہی ہوتی تو بی جے پی والے اپنے ہی لوگوں پر الزام نہ لگاتے۔ بی جے پی والوں کے مرجھائے ہوئے چہرے ساری حقیقت بیان کر رہے ہیں“۔
مغربی بنگال کی ممتا بینر جی بی جے پی سرکار کے بارے میں کیا مؤقف رکھتی ہیں یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، اور اب اگر انتخابی نتائج سے صرف دو تین روز قبل ایگزٹ پول میں یہ کہا جائے کہ بنگال میں بھی بی جے پی جیت رہی ہے تو اس پر کیا تبصرہ کیا جانا چاہیے ؟آپ خود ہی اس کا اندازہ لگا لیں ۔
بہر حال بھارت میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ ایگزٹ پول سے کنفیوژ ن کا شکارہوچکےہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی نظریں بھارت کے انتخابی نتائج پر لگی ہیں اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ بھارتی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے مختلف اداروں کے ایک جیسے ایگزٹ پولز نے کنفیوژ ن پھیلا دی ہے۔ کیا” کنفیوژ سیاسی ماحول “بھارت میں قابل قبول ہوگا اور ایگزٹ پولز جیسے انتخابی نتائج بھارتی عوام ”برداشت “ کر پائےگی ۔۔۔؟یہ بھی بہت بڑا سوال ہے۔
طاقت اور اقتدار کے کھیل میں عام آدمی پہلے خود کو بے بس ، لاچاراورکمزور سمجھتا تھا مگراب اس کی مشکل میں ایک اور کیٹگری کا اضافہ ہو چکا ہے اور اس کیٹگری کا نام ہے ”کنفیوژن “۔
جمہوریت میں انتخابات کے نتیجے میں سیاسی استحکام اور پرامن تبدیلی عوامی ووٹ کی طاقت سے آتی ہے لیکن لگتا ہے شاید دنیا ترقی تو کر گئی مگر جمہوریت بہت پیچھے رہ گئی ، جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ووٹ کی طاقت کو نہیں بچا پا رہا ، ووٹ کی طاقت ہر گزرتے الیکشن کے بعد کم ہوتی ہی کیوں نظر آ رہی ہے ؟ یہ بھی بڑا سوال ہے بھارت میں انتخابات کے نتائج کچھ بھی آئیں، کسی کے حق میں آئیں یا کسی کی مخالفت میں ۔۔۔سوالات تو اٹھ ہی گئے ہیں جواب تو دینا پڑے گا ۔۔۔بڑی جمہوریت میں ”بڑی دھاندلی “ نہیں چلے گی ۔