انٹرنیشنل

رفح میں اسرائیل کا حملہ، امریکا کا اسرائیل کے حق میں بیان، مسلم ممالک کے لمحہ فکریہ

امریکہ کے خیال میں اسرائیل نے جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں بڑے پیمانے پر حملہ نہیں کیا: ترجمان وائٹ ہائوس جان کربی

امریکا(مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیل کا جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں بڑے پیمانے پر حملے کے باوجود امریکا نے اسرائیل کے حق میں جھوٹا بیان داغ کر سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق جان کربی نے ان خیالات کا اظہار اسرائیلی ٹینکوں کے رفح شہر کے وسطی حصے میں واقع مرکزی علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کیا۔ رفح کا ال اودا نامی یہ وسطی حصہ مصر کی سرحد سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس سے قبل اسی مہینے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل رفح کے گنجان آباد علاقوں میں داخل ہوا تو وہ اسرائیل کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کو محدود کر دیں گے۔ واضح رہے کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ رفح میں سینکڑوں فلسطینی شہریوں نے پناہ لے رکھی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی سے اتوار کے روز اسرائیل کے اس حملے کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جس کے نتیجے میں ہونے والی آتشزدگی سے بچوں اور خواتین سمیت 45 فلسطینی مارے گئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس حملے میں حماس کے دو سینیئر اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ آگ حماس کے ہتھیاروں کے مرکز میں دھماکے کی وجہ سے لگی۔ جان کربی نے اس حملے کے بعد سامنے آنے والی تصاویر کو دل دہلا دینے والی اور خوفناک قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس تنازعے کے نتیجے میں کسی بھی معصوم جان کو ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ اسرائیل اس حملے کی فوری اور مکمل تحقیقات کرے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے مخصوص کیسز کے بارے میں بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک جاری تنازعے کے درمیان میں ایسی تحقیقات کے نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ جب وائٹ ہاوس کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا اس حملے نے صدر بائیڈن کی جانب سے طے شدہ حد کی خلاف ورزی کی، تو انھوں نے کہا کہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ جان کربی نے کہا کہ ہم رفح میں کسی بڑے زمینی آپریشن کی حمایت کرتے ہیں نہ کریں گے۔ صدر نے کہا ہے کہ ایسا اس صورت میں ہی ہو گا جب انھیں حمایت کے معاملے میں مختلف فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہم ابھی ایسا ہوتا نہیں دیکھ رہے۔ ہم نے انھیں رفح میں دھاوا بولتے نہیں دیکھا۔ ہم نے انھیں زمین پر مختلف اہداف کے خلاف بڑی یونٹس اور زیادہ فوجیوں کے ساتھ جاتے نہیں دیکھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button