انٹرنیشنل

ملک گیر الیکشن، امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے

ہم نہیں سمجھتے کہ جو کچھ اسرائیل نے کیا اور جو کچھ حماس نے کیا، وہ ایک جیسا ہے: امریکی صدر جوبائیڈن کا مؤقف

امریکا(مانیٹرنگ ڈیسک) ملک گیر الیکشن کا وقت قریب آتے ہیں امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور غزہ میں حماس کے تین اعلی عہدیداروں کے خلاف جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایک نامہ نگار نے بائیڈن سے یہ سوال کیا تھا کہ آیا امریکہ کے پاس ایسا کوئی ثبوت موجود ہے کہ اسرائیل غزہ کی لڑائی میں فلسطینیوں کو بھوکا رکھنے کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جیسا کہ اس ہفتے عالمی فوجداری عدالت نے الزام لگایا ہے؟

بائیڈن نے اس سوال کا براہ راست تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ کہا کہ ہم آئی سی سی کے دائرہ اختیار کو اس طرح تسلیم نہیں کرتے جس طرح سے اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے۔ بائیڈن طویل عرصے سے اسرائیل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ جو کچھ اسرائیل نے کیا اور جو کچھ حماس نے کیا، وہ ایک جیسا ہے۔ دی ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت۔ عدالت کے پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ وہ غزہ جنگ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے سلسلے میں اسرائیلی وزیراعظم، وزیر دفاع اور حماس کے تین لیڈروں کی گرفتاری کے وارنٹ طلب کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے حماس کے خلاف جنگ، 7 اکتوبر کو حماس کے عسکری گروپ کے ایک بڑے حملے کے جواب میں شروع کی تھی جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 یرغمال بنا لیے گئے تھے۔

غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اب تک 35 ہزار 700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت یہ نہیں بتاتی کہ ہلاک ہونے والوں میں کتنے جنگجو اور کتنے عام شہری تھے۔ تاہم اس کا یہ کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں کہا ہے کہ اس نے غزہ جنگ میں اب تک 14000 جنگجو اور 16000 عام شہری مارے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ملک جنگ بندی کے لیے دبا ڈال رہے ہیں اور کئی مہینوں سے جاری عارضی جنگ بندی کے مذاکرات دونوں جانب سے بعض شرائط کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button