مودی سرکار کی پاکستان کو نیچا دیکھنے کی ایک اور گھنائونی چال سے پردہ اٹھ گیا
بھارتیہ جنتا پارٹی دنیا بھر میں اور بالخصوص پڑوسی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے رابطے اور تعلقات کو وسعت دینے پر غور کررہی ہے
اسلام آباد(مانٹیرنگ ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی اور اس کی پارٹی بھارتی جنتا پارٹی کی پاکستان کو نیچا دیکھنے کی ایک اور گھنائونی چال سے پردہ اٹھ گیا ہے ۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ امریکہ اور مصر نیز شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی اجلاس اور جی 20 گروپ کے سربراہوں کے مجوزہ اجلاس کے درمیان بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی دنیا بھر میں اور بالخصوص پڑوسی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے رابطے اور تعلقات کو وسعت دینے پر غور کررہی ہے۔
اس سلسلے میں بی جے پی نے بھارت میں مشرق وسطی، یورپی یونین اور کیریبیائی ملکوں کے سفارت خانوں کے سربراہوں کے ساتھ بدھ کو دہلی میں اپنے ہیڈکوارٹر میں ایک میٹنگ کی۔ پارٹی صدر جے پی نڈا نے ان سفیروں کے ساتھ پارٹی کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ بی جے پی کے ذرائع نے بتایا کہ غیر ملکی سفارت کاروں نے حکمراں جماعت کے متعلق متعدد سوالات کیے۔ مثلا بی جے پی کانگریس سے کس طرح مختلف ہے؟ بی جے پی دوبارہ اقتدار میں کس طرح آئی؟ بی جے پی نوجوانوں کے ساتھ رابطے کے لیے ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا استعمال کس طرح کرتی ہے؟ بی جے پی کا علاقائی جماعتوں کے حوالے سے کیا نقطہ نظر ہے؟ بی جے پی کے صدر نے انہیں سن1951کے بعد سے پارٹی کی تاریخ، اس کے سفر اور حکومت کی اسکیموں کے متعلق جانکاری دی۔ پارٹی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کوششوں کا مقصد دنیا بھر کے ممالک اور بالخصوص پڑوسی ملکوں کو بھارت کے حوالے سے "درست” بیانیہ فراہم کرنا اور بی جے پی کے متعلق "گمراہ کن معلومات” کا مقابلہ کرنا ہے۔
بی جے پی آنے والے ہفتوں میں بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ اور نیپال کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماوزسٹ سنٹر)کے وفود کی میزبانی کرے گی۔ بی جے پی نے جنوبی افریقہ میں رواں برس افریقی نیشنل کانگریس کی میزبانی میں برکس ممالک کے سیاسی جماعتوں کی مجوزہ میٹنگ میں بھی شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برکس برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشمل ایک گروپ ہے۔ بنگلہ دیش کی عوامی لیگ ہو یا جنوبی افریقہ کی افریقن نیشنل کانگریس یا پھر نیپال کی سیاسی جماعتیں یہ سب بھارت کی آزادی کے بعد سے ہی کانگریس پارٹی کے کافی قریب رہی ہیں، جس نے آزادی کے بعد برسوں تک ملک پر حکمرانی کی ہے۔ بی جے پی اس صورت حال کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم اور عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ جب بھارت آئی تھیں تو انہوں نے کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی سے بھی ملاقات کی تھی۔ اپوزیشن کانگریس پارٹی نے اسے دوستی کا ایک خاص بندھن قرار دیا تھا۔
دنیا کی قدیم ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی)نے یو پی اے حکومت کے دوران کانگریس کے ساتھ باہمی تعاون کے ایک قرارداد مفاہمت پر دستخط کیے تھے۔ اے این سی نے کہا تھا کہ دونوں جماعتوں میں بہت ساری یکسانیت پائی جاتی ہے اور ان کی تشکیل میں مہاتما گاندھی کی تعلیمات کا بڑا کردار رہا ہے۔ نیپال کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی (ماوزسٹ سینٹر)کے رہنما اور وزیر اعظم پشپ کمل دہل عرف پرچنڈ نے اپنے حالیہ دورے کے دوران دہلی میں بی جے پی کے صدر دفتر کا بھی دورہ کیا تھا۔ نیپال کے وزیر اعظم بننے سے مہینوں قبل انہوں نے بی جے پی قیادت سے ملاقات کی تھی۔ بی جے پی کے ایک وفد نے گزشتہ دنوں چین کا دورہ کیا تھا۔ پارٹی نے سنگاپور جیسے ممالک میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
پچھلے چند ماہ کے دوران بی جے پی روس، جنوبی افریقہ، نیدر لینڈ، میکسیکو، کولمبیا، ایتھوپیا، کمبوڈیا، مالدیپ اور مالی کے وفود کی میزبانی کرچکا ہے۔ بی جے پی کے خارجہ امور شعبے کے انچارج وجے چوتھائی والے کا کہنا ہے کہ یہ کوششیں پڑوسی ملکوں میں بھارت کی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے کی جارہی ہیں اور ان سے سفارتی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی یہ کوششیں اگلے برس کے عام انتخابات کے لیے اس کی انتخابی مہم کا ایک حصہ ہیں۔