پاکستان مخالف مہم بھی مودی کو شکست سے نہ بچا سکی
وزیراعظم نریندر مودی نے اس بار کے الیکشن کے لیے اس بار 400 پار کا نعرہ دیا تھا۔ یعنی 543 رکنی لوک سبھا میں 400 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا
ممبئی( مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں ہونے والے حالیہ لوک سبھا الیکشن میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو پاکستان مخالف مہم بھی شکست سے نہ بچا سکی عوام نے ان کے بیانیہ کو مسترد کر دیا ۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے گھس بیٹھوں کے ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی۔ گھس بیٹھیے کا مطلب غیر ملکی درانداز ہے اور وزیر داخلہ اکثر مسلمانوں کا نام لیے بغیر اس نام سے انھیں نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کے رہنماں کی تقریروں میں جس شدت اور برجستگی کے ساتھ مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے ماضی کے کسی انتخاب میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اس بار کے الیکشن کے لیے اس بار 400 پار کا نعرہ دیا تھا۔ یعنی 543 رکنی لوک سبھا میں 400 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا۔ انھوں نے انتخابی مہم کا آغاز بہت پراعتماد طریقے سے کیا۔ ان کی ابتدائی تقریروں میں رام مندر کی تعمیر کے وعدے کو پورا کرنا، کشمیر کی دفعہ 370 کو ہٹانا اور ان کی دس برس کی حکومت کی کارکردگی کا ذکر ہوتا تھا لیکن الیکشن کے سات میں سے ابتدائی دو مراحل کے فورا بعد ان کا لب و لہجہ اچانک بدل گیا اور ان کی زیادہ تر توجہ مسلم مخالف مسائل پر مرکوز ہو گئی۔
انھوں نے اپنی تقریروں میں کہنا شروع کیا کہ اگر اپوزیشن کانگریس اقتدار میں آ گئی تو وہ ہندوں کی زمین، جائیداد یہاں تک کہ مویشی اور زیورات تک ضبط کر لے گی اور انھیں مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ ایک تقریر میں انھوں نے دعوی کیا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آ گئی تو وہ حال ہی میں تعمیر ہونے والے رام مندر پر بلڈوزر چلوا دے گی اور ملک کے بجٹ کا 15 فیصد مسلمانوں کے لیے مختص کر دے گی۔ اس طرح کے بیانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان تقریروں سے وہ دو مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے ایک تو وہ ووٹروں کے ذہن میں کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کو ہندو مخالف ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری جانب وہ ملک میں مسلمانوں کو ہندوں کے ایک مستقل دشمن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اس کا ووٹروں پر کتنا اثر ہو گا یہ تو نتیجوں سے پتہ چلے گا لیکن یہ سوچ بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا محور بنی ہوئی ہے۔